صیہیونیوں کی شدید سرکوبی کے سائے میں واپسی مارچ
غزہ کے فلسطینیوں نے مسلسل بیسویں ہفتے جمعےکو پرامن واپسی مارچ نکالا اور اپنے حقوق کی بازیابی تک اپنی جائز جد وجہد جاری رکھنے پر زور دیا۔
ملت فلسطین کے حقوق کے دفاع کے لئے فلسطینوں کا پرامن واپسی مارچ جاری ہے۔ کل جمعے کو واپسی مارچ میں شریک فلسطینیوں نے، فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل بازیابی کے ساتھ ہی غزہ کا ظالمانہ محاصرہ مکمل طور پر ختم ہونے اور سنچری ڈیل کی پرزور مخالفت کی ہے- غزہ کے عوام نے کل جمعے کو مسلسل بیسویں ہفتے، پرامن واپسی مارچ نکالا جو حالیہ دنوں میں صہیونی حکومت کی تمام تر جارحیتوں کے باوجود آزادی کے حصول کے لئے غزہ کے عزم کی آئینہ دار ہے۔ غزہ میں تیس مارچ سے، پرامن واپسی مارچ کا جو آغاز ہوا ہے وہ ملت فلسطین کی جدوجہد کے طویل سلسلے کی ایک کڑی شمار ہوتا ہے۔ گذشتہ ستر برسوں کے دوران، فلسطینی عوام نے مختلف صورتوں میں اپنی مزاحمت و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے-
اسرائیل کی جانب سے بہیمانہ تشدد، عرب اورمسلمان ملکوں کی بے وفائی، اور عالمی اداروں کی خاموشی کے سبب فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ پُرامن جدوجہد کے باب میں ان کی مستقل مزاجی ضرب المثل ہے۔ 20 اپریل 1936ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمراں ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو 178 روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔
غاصب صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت و استقامت کا ایک اور نمونہ یوم الارض کی تقریب ہے -فلسطینی عوام ہر سال 30 مارچ کو اپنی سرزمین پر صہیونی قبضے کے خلاف احتجاجاً یومِ الارض مناتے ہیں، اس روز مختلف ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں. فلسطینی قوم نے اس دن کے منانے کا سلسلہ 42 سال پیشتر 1976ء میں کیا تھا۔ یہ دن منانے کا مقصد فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق کے دفاع اور اس ارض وطن کے ساتھ اپنی وابستگی کے عزم کا اعادہ کرنا ہے ۔ یہ دن نہ صرف اندرون فلسطین منایا جاتا ہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلے فلسطینی اس دن کو نہایت اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔ اس روز فلسطینی قوم اپنے حق خود ارادیت کے حصول اور حق واپسی کے عزم کا اعادہ کرتے اور دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ ’قوم بے زمین‘ نہیں، بلکہ ایک ایسی قوم ہے جس کا اپنا صدیوں پرانا وطن ہے۔
غزہ کی پٹی میں 30 مارچ 2018ء کو ’یوم الارض‘ کے موقع پر پرامن انقلاب کا ایک نیا آغاز کیا گیا۔ فلسطینی اس انقلاب کو ’عظیم الشان واپسی مارچ‘ کا نام دیتے ہیں۔ گذشتہ بیس ہفتے سے اسرائیلی فوج کی غزہ کے شہریوں پر بہیمانہ فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک سوپچپن سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ تقریبا سترہ ہزار فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جن میں سے بہت سے فلسطینیوں کی حالت نازک ہے -
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے پرامن مظاہرے کو کچلنے کے لئے براہ راست گولیوں کا استعمال کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود نہ فقط عالمی ادارے خاموش ہیں بلکہ امریکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے- باوجودیکہ اسرائیلی تشدد میں اضافے نے فلسطینیوں کے لئے سخت حالات پیدا کردیئے ہیں لیکن اسرائیل کے یہ اقدامات، اس کی تسلط پسندیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی پائیداری جاری رہنے میں مانع نہیں بن سکے ہیں- فلسطینیوں کے وطن واپسی کے مظاہرے جاری رہنے سے، مسئلہ فلسطین کو کنارے لگانے کے امریکی منصوبوں پر عملدرآمد کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور یہ مظاہرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اس پیغام کے حامل ہیں کہ فلسطینی عوام امریکہ کے تمام سازشی منصوبوں کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی ان کے حقوق کو پامال کرے- قابل غور نکتہ یہ ہے کہ غزہ میں عظیم واپسی مارچ کے خلاف اسرائیل کے تشدد میں اضافے سے فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں اور ان کی تحریک رکی نہیں ہے بلکہ غرب اردن میں بھی فلسطینی علاقوں میں مزاحمتی تحریک میں شدت آنے کا باعث بنی ہے۔ صیہونی غاصبوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے قومی اقتدار کے باعث، فلسطینیوں کی امنگوں اور مقاصد کے حصول کے افق روشن کر دیئے ہیں-