Aug ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  • ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کی تنہائی

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکہ ، ایٹمی سمجھوتے کے مسئلے میں ہمیشہ سے زیادہ تنہائی کا شکار ہوگیا ہے-

جواد ظریف نے بدھ کو ایران کے ٹی وی چینل دو پر ایک اسپیشل ٹاک پروگرام میں کہا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یورپ صرف ایران کی وجہ سے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت نہیں کرتا اور وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد پر دنیا کے بارے میں فیصلہ کرے- ایران کے وزیرخارجہ نے اس کے ساتھ ہی کہا کہ ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے سلسلے میں یورپ کی کوششیں مثبت ہیں تاہم کافی نہیں ہیں-  یورپ کوامریکی پابندیوں کے مقابلے میں اپنی کمپنیوں کی حمایت کرنا چاہئے اور ضروری قیمت چکا کر عملی اقدامات کرنا چاہئے-ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد اس بین الاقوامی سمجھوتے کی حفاظت کے سلسلے میں یورپیوں کا سیاسی عہد و پیمان قابل قبول رہا ہے لیکن عملی طور پر یورپیوں کا اقدام قابل قبول نہیں ہے-

ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے لئے یورپی کمپنیوں کے شکوک و شبہات دور کرنے، بینکنگ سسٹم کی برقراری اور ایران کے تیل کی فروخت، تین اہم امور ہیں کہ جو یورپ کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھ سکتے ہیں- ایٹمی سمجھوتے کا تحفظ عالمی سطح پر یورپیوں کی عملی خودمختاری اور ساکھ کی حیثیت رکھتا ہے- یورپ ایٹمی سمجھوتے سے ایران کے فائدہ اٹھانے کے لئے جو عملی اقدامات انجام دے رہا ہے، اس سے امریکہ کے سیاسی عزم سے قطع نظر یورپ کی بازی گری اور حیثیت ظاہر ہوتی ہے- دنیا میں سفارتکاری کے لئے ایٹمی سمجھوتے کی بقاء اس قدر اہم ہے کہ روس کے صدر پوتین نے گزشتہ اتوار کو قزاقستان کے شہر آکتاؤ میں بحیریہ خرر کے ساحلی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پراسلامی جمہوریہ ایران کے صدرحسن روحانی سے ملاقات میں ایٹمی سمجھوتے کو ایک بین الاقوامی سمجھوتہ اور اہم قرار دیا اور کہا کہ ایٹمی سمجھوتے سےامریکہ کے یکطرفہ طور پر باہر نکلنے کے بعد تمام فریقوں کی جانب سے اس کا تحفظ اوراستحکام ضروری ہوگیا ہے- امریکہ کی جانب سے پیرس معاہدے سے باہر نکلنے ، تجارتی جنگ شروع کرنے ، روس ، ترکی و دیگر ممالک کے خلاف پابندیاں لگانے اور ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کی وجہ سے دنیا عالمی اتفاق رائے کی جانب گامزن ہوگئی ہے -

روس ، ترکی ، چین اور بعض یورپی ممالک کے رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا نے ٹرمپ کے یکطرفہ طرزعمل کو ترک کردیا ہے-  اس کے علاوہ امریکہ کے اندربھی ٹرمپ مخالف آوازیں بلند ہورہی ہیں اور اس طرح کے رویے نے ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکہ کی تنہائی کو طشت از بام کردیا ہے - امریکی سینیٹرجیک ریڈ نے اتوار کو اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران کے خلاف عالمی اتحاد ختم ہوچکا ہے ، اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ ، ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل چکا ہے اور اب اس کے پاس متحد اور ایران مخالف دنیا نہیں ہے اور وہ اپنے یورپی اتحادیوں کو بھی کھوچکا ہے- 

 جرمنی کے وزیراقتصاد پیٹرالمٹمائر نے بھی امریکی صدر کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ برلین اوراس کے اتحادی امریکہ کے دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی کمپنیوں کی حمایت جاری رکھیں گے اور یورپ ایران کے سلسلے میں امریکہ کا دباؤ تسلیم نہیں کرے گا-ایٹمی سمجھوتے سے ایران کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لئے یورپ کے پاس عملی اقدامات کے لئے محدود وقت بچا ہے جس کی بنا پر آج کل ایران کی کی حساسیت بڑھنے کے ساتھ ہی یورپیوں کے امریکہ مخالف موقف میں بھی زیادہ شدت آگئی ہے تاہم  یورپ کو عملی طور پر اقدامات کرنا چاہئے تاکہ ٹرمپ کی ایران کے تیل کی فروخت صفر تک پہنچانے کی پالیسی کے تناظر میں تیل کی فروخت اور تجارت کا سلسلہ بند نہ ہو- 

اس تناظر میں یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے مقابلے کے قانون کو اپڈیٹ کر کے اس پر عمل درآمد شروع کردیا ہے اور یورپی کمپنیوں کو ایران میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلائی ہے - اس سے یورپ کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی مکمل پابندی کا پتہ چلتا ہے اور توقع بھی یہی ہے تاہم یورپ کس حد تک امریکی پابندیوں  اور ٹرمپ کی دھمکیوں و تنبیہ کا مقابلہ کرتا ہے اس کا انحصار اس کی قیمت پر ہے کہ جو یورپ کو ایٹمی سمجھوتے کو جاری رکھنے کے لئے اپنے حیثیت کی حفاظت کے لئے ادا کرنا پڑے گا- 

ٹیگس