Aug ۱۷, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۵ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنانہ پالیسیاں جاری

امریکہ نے ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کے بعد ایران پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی دوہزاراٹھارہ میں ایران کے خلاف بےبنیاد الزامات دہراتے ہوئے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے اور تین سے چھے مہینے میں ایٹمی پابندیاں بحال کرنے کا اعلان کیا ہے-

 ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے پہلے مرحلے پر سات اگست دوہزار اٹھارہ سے عمل درآمد شروع ہوچکا ہے کہ جس کی عالمی سطح پر مذمت بھی کی گئی ہے- ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے دوسرے مرحلے میں تیل کی برآمدات سے متعلق پابندیاں بھی ہیں جو چار نومبر دوہزار اٹھارہ سے شروع ہوں گی- موجودہ مرحلے میں امریکہ کا اصلی مقصد ایٹمی پابندیوں کو دو مرحلوں میں نافذ کر کے تیل کی فروخت پر پابندی لگانا اور ایران و دیگر ممالک کے درمیان  بینکنگ سسٹم میں تعاون اور تجارت نہ کرنا ہے تاکہ ایران، اقتصادی لحاط سے بکھر جائے- درحقیقت امریکہ نے ایران کے خلاف بڑے پیمانے پر اقتصادی جنگ شروع کردی ہے- اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ان کے وزارت خانے نے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد ایران کے خلاف کوششوں کو ہماہنگ کرنے کے لئے خصوصی ایکشن گروپ تشکیل دیا ہے-

پمپئو کے اعلان کے مطابق اس گروپ کی سربراہی امریکی وزارت خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے ڈائرکٹر برائن ہوک کریں گے - برائن ہوک ایٹمی سمجھوتے سے ٹرمپ کے نکلنے سے پہلے یورپی یونین کے ساتھ واشنگٹن کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے- برائن ہوک کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے تہران کے ساتھ جامع اسٹریٹیجی اپنا رکھی ہے اس سلسلے میں ایران ایکشن گروپ کی کوشش ، عالمی سطح پر ایران کا رویہ تبدیل کرانا ہے اگر ایران نے اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی پیدا کی تو ایران کے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاسکتی ہے- درحقیقت اس خصوصی اقدام گروپ کی تشکیل کا مقصد ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے میں واشنگٹن کا ساتھ دینے کے لئے ملکوں کو راضی کرنا ہے - اس گروپ کا اصلی مقصد جیسا کہ اس گروپ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایران کو ان بارہ شرطوں کو تسلیم کرنا ہے جن کا ابھی کچھ دنوں پہلے امریکی وزیرخارجہ نے تہران سے مطالبہ کیا ہے تاکہ اس طرح ان میدانوں میں ایران کے رویے میں تبدیلی عملی طور پر ظاہر ہو- اس تناظر میں امریکہ ، ایران کا ایٹمی پروگرام پوری طرح بند کرانا، میزائلی پروگرام روکنا اور علاقے میں اس کے اقدامات اور پالیسیوں کو ترک کرانا چاہتا ہے- درحقیقت امریکہ اسلامی جمہوریہ نظام کا تختہ الٹنا چاہتا ہے - اس سلسلے میں امریکی وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کی ایک ٹیم نے ایران پر پابندیوں کے سلسلے میں چوبیس سے زیادہ ملکوں کا دورہ کیا ہے اور آئندہ مہینوں میں مزید ملکوں کا بھی دورہ کرے گی- امریکیوں کا دعوی ہے کہ ان کے مذاکرات مثبت رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ ایران سے تیل خریدنے والے ممالک ایران کے تیل کی برآمدات صفر تک پہنچانے کے امریکی ہدف کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کریں گے اور اس کی پابندی کریں گے- اس کے باوجود ایسے ثبوت و شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی کے بارے میں واشنگٹن کی امید کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ چین اور ترکی جیسے ایرانی تیل کے خریداروں نے ایرانی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر تاکید کی ہے اور ہندوستان بھی امریکی پابندیوں سے استثناء حاصل کرتے ہوئے ایران کے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا خواہاں ہے- اس کے ساتھ ہی امریکہ کا یہ دعوی بھی صحیح نہیں ہے کہ تیل کی منڈی میں ایران کے تیل کی کمی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا- تیل کی منڈی میں فعال ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے تیل کی برآمدات پر امریکی پابندی تیل کی قیمت کو ایک سو پچاس ڈالر تک پہنچا سکتی ہے- تیل کے شعبے کے ماہر پیرآنڈورانڈ کا کہنا ہے کہ اس وقت اوپک اپنی پوری تاریخ میں اپنی ظرفیت سے کافی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے جو اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور آئندہ دو برسوں میں تیل کی قیمت ایک سو پچاس ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی- اس کا عالمی اقتصادی ترقی پر منفی اثر پڑے گا اور یہ بہت سے ملکوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا - اس کے ساتھ ہی امریکہ کو ایران کے خلاف پابندیوں کے نئے دور میں اپنے یورپی اتحادیوں اور دیگر ملکوں کا ساتھ بھی میسر نہیں ہوگا اور وہ صرف طاقت کے بل پر ایران کے خلاف پابندیاں منوانے کی کوشش کررہا ہے-

 

 

 

 

 

 

 

ٹیگس