Sep ۰۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۲ Asia/Tehran
  • یمن کے بارے میں جنیوا مذاکرات ملتوی، پچیس مہینوں سے جاری سیاسی تعطل برقرار

اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات جو جمعرات چھ ستمبرکو ہونے والے تھے، ملتوی ہوگئے ہیں-

یمن کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کو بیالیس مہینوں کا عرصہ گذر رہا ہے اور اقوام متحدہ نے ان گذشتہ بیالیس مہینوں کے دوران ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ یمنی گروہوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ نے یمن کے امور میں خصوصی نمائندے کا انتخاب کرکے اس بات کی کوشش کی ہے کہ یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کے لئے حالات فراہم ہوں اور اسی سلسلے میں مارٹین گریفیتھس اپنا رول ادا کر رہے ہیں- یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کا آخری دور کویت میں منعقد ہوا تھا کہ جو اگست 2016 میں سو دنوں کے بعد کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا- جبکہ طے یہ پایا تھا کہ پچیس مہینوں کے تعطل کے بعد یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کا نیا دور چھ ستمبر کو جنیوا میں انجام پائے تاہم مارٹین گریفیتھس نے کوئی وجہ بتائے بغیر اعلان کیا کہ یہ مذاکرات ملتوی ہوگئے ہیں- 

اہم سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ یمنی عوام کو بدترین صورتحال کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بقول اس ملک کا موجودہ بحران، گذشتہ عشروں کے دوران سب سے بڑا انسانی بحران ہے، پھر آخر کیوں یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کو التوا میں ڈالا گیا ہے؟-

ان مذاکرات کو التوا میں ڈالے جانے کی ایک اہم ترین وجہ سعودی اتحاد کی خلاف ورزیاں اور اس راہ میں، اس کا روڑے اٹکانا ہے۔ اس لئے کہ یمن کی تحریک انصاراللہ کی اعلی سیاسی کونسل کے اس اعلان کے باوجود کہ اس تحریک کا وفد جنیوا مذاکرات میں شرکت کرے گا لیکن سعودی اتحاد نے اس طیارے کو صنعا ایئرپورٹ سے اڑنے کی اجازت نہیں دی کہ جس کے ذریعے یہ وفد جنیوا جانے والا تھا- سعودی اتحاد نے اس سے قبل بھی جنیوا میں ہونے والے ایک اور مذاکرات کے لئے یہی ہتھکنڈہ  استعمال کیا تھا۔ اس وقت سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک بچوں اور عورتوں کا قتل عام کرنے کے سبب عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں ہیں اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ ایسے حالات میں یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات انجام پائیں- کیوں کہ وہ ان مذاکرات کے عدم انعقاد کو اپنے مفادات سے سازگار سمجھتے ہیں- 

اگرچہ یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات التوا میں پڑگیا ہے لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی اور وقت اور زمانے میں ان مذاکرات کے منعقد ہونے کی صورت میں بھی اس بات کی امید نہیں رکھی جا سکتی کہ ان سے یمن کے موجودہ بحران کے حل میں کوئی مدد ملے گی کیوں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ، ان مذاکرات میں ہونے والے ممکنہ سمجھوتوں پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا ہے۔ اسی سلسلے میں جنیوا مذاکرات میں یمنی وفد کے سربراہ محمد عبدالسلام نے ان مذاکرات کو التوا میں ڈالے جانے کے بعد کہا کہ اقوام متحدہ نے اب تک کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا ہے -

یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف یمن کے بحران کو سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور اسے فوجی طریقے سے حل کرنا ممکن نہیں ہے تو دوسری طرف یہ مذاکرات اس وقت سودمند واقع ہوں گے جب یمنی گروہوں کے درمیان ہوں اور بڑی طاقتیں غیرجانبداری کی ضمانت کے ساتھ، مذاکرات میں ہونے والے ممکنہ سمجھوتوں کی حمایت کردیں- اس لئے کہ بڑی عالمی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں بلکہ یہ طاقتیں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ہمراہ، یمن مخالف اتحاد کے جرائم میں برابر کی شریک ہیں۔ امریکی کانگریس میں ڈموکریت سینیٹر برنی سنڈرز نے اب تک کئی مرتبہ اپنے ٹوئیٹ میں صراحتا امریکہ کو یمن کے خلاف سعودی عرب کے جرائم میں شریک قرار دیا ہے اور ان حمایتوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے- 

کچھ عرصہ قبل صنعا میں سوئیڈش وزیر خارجہ کے خصوصی ایلچی پیٹر سیمنبی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی مشاط نے جنگ بندی کے لئے قومی حکومت کی شرائط کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اور سعودی اتحاد کے حامی یمن پر جارحیت بند کرنا نہیں چاہتے۔  ان کا کہنا تھا کہ منصور ہادی اپنی حکومت کے جواز اور امریکہ اور سعودی اتحاد کے حامی مغربی ممالک کی، اسلحہ تجارت سے حاصل ہونے والے بھاری منافع کی فکر میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یمن کی جنگ بند ہو گئی تو امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کو عرب ممالک کو اسلحے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی بند ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں نے مارچ دو ہزار پندرہ سے یمن کو زمینی، فضائی اور سمندری جارحیت کا نشانہ بنانے کے لئے مشرق وسطی کے اس غریب اسلامی ملک کی مکمل ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ یمنی شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ یمن کی وزارت صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق سعودی جارحیت کے آغاز سے اب تک بارہ سو سے زائد افراد گردے کے امراض میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ٹیگس