Sep ۰۹, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • بیجنگ میں ایران کے وزیر دفاع کے مذاکرات، فوجی اور اقتصادی تعاون پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی نے کہ جو اپنے چینی ہم منصب کی دعوت پر اور فوجی و اقتصادی تعاون کی توسیع کے مقصد سے بیجنگ کے دورے پر ہیں ، چینی وزیر دفاع "وی فنگ ھہ" کے ساتھ ملاقات میں علاقائی مسائل اور دوطرفہ دفاعی و فوجی تعاون کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے-

ایران اور چین کے وزرائے دفاع نےعلاقے کے حالات خاص طور پر جنوب مشرقی اور مغربی ایشیا میں امریکہ کے ایجاد کردہ بحرانوں کے تعلق سے ضروری ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مذاکرات انجام دیئے ہیں- وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی نے اسی طرح چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا  کے ساتھ بھی ملاقات میں دنیا خاص طور پر مغربی ایشیا کی پیچیدہ صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، امن و ثبات قائم کرنے کے لئے ایران اور چین کے علاقائی تعاون کے بارے میں تبادلۂ خیال کو ضروری قرار دیا -

اسلامی جمہوریہ ایران دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں بھرپور دفاعی صلاحیت سے بہرہ مند ہے اس کے ساتھ ہی ایران نے فوجی شعبے میں دو ہدف کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے-

پہلا ہدف ضروری شعبوں ، خاص طور پر میزائل کے شعبے میں دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے کہ جو دفاعی ڈیٹرنس کے مسئلے میں اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے-

دوسرا ہدف میزائل کے شعبے میں تیزی لانے کے مقصد سے آزاد و خودمختار ملکوں کےساتھ فوجی تعاون کی گنجائشوں سے استفادہ کرنا ہے-

اسی سلسلے میں بیجنگ اور تہران کے درمیان تعلقات کے فروغ کا عمل، اس امر کا غماز ہے کہ فریقین علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے سلسلے میں اقدامات انجام دے رہے ہیں-

سابق ایرانی سفارتکار اور مشرق وسطی کے مسائل کے ماہر سید ہادی افقہی کہتے ہیں کہ اس طرح کے تعاون ، تعلقات کی سطح کو فوجی تعاون سے بالاتر قرار دے سکتے ہیں اور حتی اقتصادی تعاون کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں-

یہ مسئلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایران اور چین ، اقتصادی شعبے میں بھی نمایاں تعاون انجام دے رہے ہیں اور علاقے میں امن و سلامتی قائم ہونے سے، اقتصادی تعلقات کو بھی ٹھوس ضمانت حاصل ہوگی۔ دوسری طرف علاقے میں امن و استحکام قائم کرنے نیز دہشت گردی اور داعش گروہ سے مقابلے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی طاقت کے مفید و مثبت ہونے اور ایران سے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے پڑوسی ملکوں کی درخواست ، تہران اور بیجنگ کے تعلقات میں نیا باب کھولنے میں موثر رہی ہے-

اس وقت تہران اور بیجنگ پرعزم ہیں کہ فوجی شعبے میں مشترکہ اسٹریٹیجی اپنا کر، اس تعاون کو مزید فروغ دیں - یہ فیصلہ ، ایسے حالات میں کہ جب امریکہ کی یکطرفہ پالسیوں نے علاقے کو بدامنی اور عدم استحکا سے دوچار کر دیا ہے اور وہ علاقے میں اجتماعی تعاون اور مفادات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے ، بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 

اس وقت کئی برسوں سے دہشت گرد گروہوں نے علاقے کی امن و سلامتی کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ۔ لیکن اسلامی جہموریہ ایران اپنی اصولی اسٹریٹیجی کی بنیاد پر ہمیشہ امن و صلح کا درپے رہا ہے۔ یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ ایران عالمی امن و سلامتی کے میدان میں فعال کردار ادا کرے۔ اور یہ مسئلہ بیجنگ کے لئے بھی علاقے کے ایک بڑے اور بااثر اقتصادی ملک کی حیثیت سے، اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ خطے میں امن و استحکام کا قیام ،درحقیقت اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لئے ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک کہ امن و استحکام قائم نہ ہو، اقتصادی تعاون میں توسیع کی فضا ہموار نہیں کی جاسکتی- ایران کے وزیر دفاع کا دورۂ بیجنگ اور دونوں ملکوں کے فوجی حکام کے مذاکرات، اسی تناظر میں قابل غور ہیں-          

ٹیگس