Oct ۱۴, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۰ Asia/Tehran
  • امریکی منصوبے سنچری ڈیل سے مقابلے پر او آئی سی کی تاکید

امریکی منصوبے سنچری ڈیل سے مقابلے کے لئے لبنان کے اسپیکر نبیہ بری نے جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں کہا ہے کہ سنچری ڈیل منصوبے نے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو نشانہ بنا رکھا ہے-

ترکی کے پارلمینٹ اسپیکر نے بھی عالمی سطح پر خاص طور پر اقتصادی میدان میں امریکہ کی اجارہ داری کے تعلق سے اقدامات پر کڑی نکتہ چینی کی اور مسئلہ فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس پر قادر نہیں ہے کہ فلسطین تک امداد رسانی کے تمام ممکنہ راستے بند کرکے اس ملک کے وجود کو مٹا سکے۔ امریکہ نے گذشتہ مہینوں کے دوران مختلف اقدامات منجملہ اقوام متحدہ کی 'ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی(آنروا) UNRWA کی امداد منقطع کرکے فلسطیینی قوم پر مزید دباؤ بڑھانے اور اسے سخت ترین حالات سے دوچار کرنے کے درپے ہے۔ 

فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد ختم کرنے کا امریکی اقدام اپنی نوعیت کا نیا اعلان نہیں ہے -امریکی انتظامیہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے ادارہ ’آنروا‘ پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اس تنقید میں پیش پیش رہے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی قیادت نے امریکہ کی طرف سے امداد بند کیے جانے کو انتقامی سیاست قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی امداد اس لیے بند کی گئی کیونکہ ہم نے بیت القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کو مسترد کردیا تھا۔ درایں اثناء جرمن وزیر خارجہ ھائیکوماس نے کہا ہے کہ ان کا ملک ’آنروا‘ کی مالی معاونت میں اضافہ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد روکنا، خطے کو ایک نئی کشیدگی سے دوچار کرنے اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کے مترادف ہوگا-

امریکہ کے یہ اقدامات ، اس ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں کا حصہ ہیں کہ جس کے ذریعے وہ فلسطینیوں پر دباؤ بڑھانا چاہتےہیں۔ سنچری ڈیل کی بنیاد پر ،قدس کو اسرائیل کو سونپ دیا جائے گا اور فلسطینی پناہ گزینوں کو دیگر ملکوں سے اپنے وطن واپسی کا حق نہیں ہوگا اور فلسطین کی حکومت، صرف غرب اردن اور غزہ کی باقیماندہ اراضی کی مالک ہوگی- فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ ڈاکٹر اسما‏عیل ہنیہ نے کہا ہے کہ امریکہ کا سنچری ڈیل منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔

ٹرمپ نے چھ دسمبر 2017 کو اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن بیت القدس کو سرکاری طورپر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے اور وہ اپنا سفارتخانہ بھی تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا چنانچہ امریکی انتظامیہ نے چودہ مئی 2018 کو اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ بھی پہنا دیا-شہر قدس کہ جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ مسجد الاقصی ہے، فلسطین کا اٹوٹ حصہ اور تین مقدس اسلامی مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے کہ جس پر صیہونی حکومت کا قبضہ ہے۔ 

اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں، عالم اسلام کے اہم مسائل کی حیثیت سے قدس اور فلسطین کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر ، اجلاس کے شرکاء نے احتجاج اور اعتراض کیا ہے۔ رواں سال میں تہران میں منعقد ہونے والے او آئی سی کی انٹرپارلیمنٹری یونین کے سربراہی اجلاس میں امریکی اقدامات اور فیصلوں نیز اس ملک کے سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کی مذمت کی گئی اور فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی ، اس ملک سے غاصب صہیونی حکومت کے قبضے کے خاتمے ، فلسطینیوں کو ان کے وطن واپسی کے حق اور قدس کی مرکزیت میں ایک آزاد و خودمختار حکومت کی تشکیل پر زور دیا گیا-

اسلامی تعاون تنظیم میں 57 ممالک، اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ہیں اور اس طرح یہ اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے میں مدد کرنے کی کافی توانائی و صلاحیت رکھتی ہے اس کے باوجود حالیہ برسوں میں سعودی عرب جیسے بعض رکن ممالک نے یمن و شام جیسے مختلف علاقوں میں بحران کھڑا کر کے اور جنگ کی آگ بھڑکا کر عالم اسلام کو داخلی اختلافات میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے او آئی سی کے اندر عالم اسلام کے مسائل و مشکلات کے حل میں مدد کی توانائیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں-

ایسے حالات میں کہ جب امریکہ نے فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنے، قدس کو مکمل طور پر یہودی ریاست بنانے اور اسلامی ملکوں پر تسلط کے لئے، اپنے دشمنانہ منصوبوں کو ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے، عالمی برادری کی او آئی سی سے یہ امید رکھتی ہے کہ ان امریکی اقدامات کے خلاف ٹھوس تدابیر اختیار کرے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جس پر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں منجملہ لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر نبیہ بری نے اس پر تاکید کی ہے- 

ٹیگس