Oct ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۷ Asia/Tehran
  • خاشقجی کے قتل سے متعلق، استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں چھان بین

ترک ذرائع نے ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کی چھان بین کے دوران جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ٹھوس ثبوت و شواہد ملنے کی خبر دی ہے۔

ترکی کے اٹارنی جنرل آفس نے اعلان کیا ہے کہ سعودی پالیسیوں پرتنقید کرنے والے صحافی خاشقجی کے قتل کے ثبوت و شواہد چھپانے کی کوششوں کے باوجود استنبول میں واقع سعودی عرب کے قونصل خانے کی ابتدائی چھان بین میں، خاشقجی کے قتل سے متعلق اہم شواہد ملے ہیں- اس رپورٹ کے مطابق جو ثبوت و شواہد ملے ہیں ان سے خاشقجی کے قتل کے بارے میں قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے-

در ایں اثنا سی این این ٹی وی چینل نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب، جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کر رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امکان ہے کہ اس رپورٹ میں سعودی عرب اعتراف کرے گا کہ معروف سعودی مخالف صحافی خاشقجی کا تفتیش کے دوران غلطی سے قتل ہوگیا ہے۔ 

سی این این کے مطابق یہ رپورٹ ابھی تیار کی جا رہی ہے اور اس میں تبدیلیوں کا امکان پایا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی امکان ہے کہ اس رپورٹ میں یہ بھی یہ اعلان کیا جائے کہ یہ کارروائی کسی تائید کے بغیر انجام پائی ہے اور جو افراد اس کے ذمہ دار ہیں ان کو سزا دی جائے گی- امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب میں شاہی خاندان کی جانب سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات کے مخالف تھے اور اکثر ان پر تنقید کرتے تھے۔

وہ 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہوگئے تھےجبکہ ترکی نے انہیں قتل کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اور ذرائع ابلاغ نے بھی اس سے قبل رپورٹ دی تھی کہ خاشقجی کی لاش ایسی حالت میں ملی ہے کہ کہ جس پر انتہائی تشدد اور شکنجے کے نشانات ہیں۔ خاشقجی کا نام سعودی حکومت کے مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل تھا اور اسی لئے وہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے- 

حاصل شدہ ثبوت و شواہد کا وجود، اور سعودی قونصل خانے سے خاشقجی کے نکلنے پر مبنی ضروری ثبوت و شواہد پیش کرنے میں سعودی عرب کی ناتوانی سے ثابت ہوتا ہے کہ خاشقجی کے قتل کا مسئلہ ایک قطعی اور حتمی امر ہے۔ لیکن اس کے باوجود سعودی حکومت خود کو خاشقجی کے قتل سے بری الذمہ قرار دے کر ان کے قاتلوں کو خودسر ظاہرکرنے کے درپے ہے۔ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہ جنہوں نے شروع میں اس قتل پر ردعمل ظاہر کیا تھا، کل ایک انٹرویو میں کہا کہ خاشقجی کو لاپتہ کرنے والے، خودسر اور سرکش افراد ہیں- اس صحافی کی گمشدگی پر ترکی کے سخت ردعمل کے ساتھ ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صحافی کے سعودی قونصل خانے میں مبینہ قتل پر سعودی عرب کوسخت ترین سزا کی دھمکی دی تھی ۔ تاہم سعودی عرب نے ایک دھمکی آمیز بیان میں کہا کہ  پابندی لگائی گئی یا کسی بھی طرح جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

دریں اثنا امریکی کانگریس کے کئی اراکین نے سعودی حکومت کے مخالف معروف صحافی جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں ٹرمپ حکومت کے کمزور موقف پر کڑی تنقید کی ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹ کے بھی تیئیس اراکین نے اس سلسلے میں ٹرمپ حکومت کے رویے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان امریکی سینیٹروں نے تاکید کی ہے کہ اس سلسلے میں واشنگٹن حکومت کی جانب سے سخت بیان جاری کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا پیغام جا سکے کہ امریکی حکومت اس معاملے میں کوئی سودا نہیں کرے گی۔امریکی اراکین کانگریس نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت، خاشقجی کے قتل کیس کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایک ایسی حکومت پر بھروسہ کر رہی ہے جو اپنے مخالفین کا صفایا کر رہی ہے۔

بہرحال کیوں کہ خاشقجی کے قتل کا یہ واقعہ ترکی کی سرزمین پر پیش آیا ہے اور ترکی کے پاس اس قتل کے کافی حد تک ثبوت و شواہد بھی موجود ہیں تو اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے اس غیر قانونی اور دہشت گردانہ اقدام پر ترکی کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ واضح سی بات ہے کہ سعودی عرب کے خودساختہ سناریو کے مقابلے میں ترکی کی خاموشی یا اس کے تسلیم ہوجانے سے، ترکی کی سرزمین پر سرکاری دہشت گردی کی زمین ہموار ہوسکتی ہے-

 

 

ٹیگس