Oct ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۷ Asia/Tehran
  • ایران کے وزیر دفاع کے نقطہ نگاہ سے، امریکہ اور مغرب کا دوہرا معیار

دارالحکومت تہران، بارہ سے پندرہ اکتوبر تک چوتھی ایشیا پیسفک ملٹری میڈیسن کانگریس (ICMM) کا میزبان تھا۔ اس اجلاس نے یہ موقع بھی فراہم کیا کہ ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا بھی جائزہ لیا جائے-

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیردفاع امیر حاتمی نے پیر کے روز تہران میں چوتھی ایشیا پیسفک ملٹری میڈیسن کانگریس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے تعلق سے بھی ایک تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ  آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران ایرانی عوام کو دنیا کی سب سے بڑی بزدلانہ جنگ کے ذریعے کیمیائی ہتھیاروں اور غیر قانونی بموں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عراق اور ایران جنگ کے دوران عراق کی بعثی حکومت نے پانچ سو ستر بار سے زیادہ ایران پر کیمیائی بمباری کی تھی لیکن عالمی اداروں نے اس کی مذمت کے لیے ایک بھی اجلاس نہیں بلایا۔ ایران کے وزیردفاع نے جنگ پسند ملکوں کا مقابلہ کیے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دنیا، من گھڑت ایٹمی بحران کے مرحلے میں ایران کی نیک نیتی کا مشاہدہ کرچکی ہے-انہوں نے کہا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ایران ایک ذمہ دار ملک ہے اور دنیا میں امن و سلامتی کا خواہاں ہے۔

خیال رہے کہ ایران کے خلاف عراق کے معدوم ڈکٹیٹر صدام نے امریکہ کی حمایت سے جارحانہ حملوں اور جنگ کا آغاز کیا تھا- اور اس جارح حکومت نے ایران کے مختلف شہروں پر کیمیائی بمباری کی تھی جن میں سردشت بھی شامل ہے جس پر1987 میں کیمیائی بمباری کی گئی تھی- 

عراق نے مارچ 1988 میں کردستان کے شہر حلبچہ پر بھی بمباری کی تھی۔ ثبوت و شواہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان ہتھیاروں کی تیاری کے لئے خام مال، امریکہ اور بعض دیگر یورپی ملکوں کے توسط سے صدام کو دیئے گئے تھے- فرانسیسی اخبار " لیبریشن " نے ایک رپورٹ میں " جس وقت کہ عراق امریکہ کی نگاہوں کے سامنے ایران پر کیمیائی بمباری کر رہا تھا" کے زیر عنوان لکھا ہے کہ ایران کے خلاف جنگ میں عراق کے ذریعے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لیبریشن نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ ایران نے امریکہ اور یورپ کی اس دوغلی پالیسی کو دنیا والوں پر اس وقت برملا کردیا تھا کہ جب عراقی حکومت کی کیمیائی بمباری میں ایرانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے تھے- ایران کے وزیر دفاع کا بیان بھی اسی نکتے کی جانب اشارہ ہے۔

ایک دستاویز کہ جو چند روز قبل سی آئی اے کے توسط سے خفیہ درجہ بندی سے خارج ہوگئی، اور جو 23 مارچ 1984 سے تعلق رکھتی ہے، سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس وقت کی امریکی حکومت اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ اس قسم کے حملے ایران کو جھکنے پر مجبور کر سکتے ہیں- 

ان دنوں بھی مغربی ایشیاء کے خطے میں جاری خونریز جنگوں میں امریکہ کا ہاتھ  صاف نظر آتا ہے۔ افغانستان، عراق، شام اور یمن میں جنگوں کے تلخ حقائق اور القاعدہ ، داعش اور دیگر گروہوں کو وجود دینے اور سعودی عرب اور صیہونی حکومت کو غیر قانونی اور غیر روایتی ہتھیار دینے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہر وسیلے اور ہتھکنڈے کو بروئے کار لاتا ہے- 

 اقوام متحدہ میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے گزشتہ روز، منشور اقوام متحدہ کے عنوان سے جنرل اسمبلی کی چھٹی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ دوسرے ممالک کو ڈرانا  دھمکانا امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اہم جز بن چکا ہے جس سے اقوام متحدہ کمزور ہورہی ہے.انہوں ںے کہا کہ امریکہ دوسرے ممالک کو دھمکانے کے نشے میں دھت ہے جس کی وجہ سے منشور اقوام متحدہ کے نفاذ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں.

امریکہ کہ جو اس مرحلے میں بھی ایران میں اپنے مفادات کو ہاتھ سے کھوتا ہوا دیکھ رہا ہے، ایران کے خلاف بہانے بازیوں کے ذریعے سازشیں کرنے اور نئی پابندیاں عائد کرنے کے درپے ہے۔ اسی لئے ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی نے پابندیوں کو اقتصادی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، اقتصادی دہشت گردی کے ذریعے ایران میں دواؤں کی تیاری اور انسانی ضروریات کی اشیا کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے پاس کیمیائی حملوں کے متاثرین کے علاج و معالجے کا خاصا تجربہ ہے اور ہم اپنے تجربات دیگر ملکوں کو منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں۔  

 

 

 

ٹیگس