Oct ۱۹, ۲۰۱۸ ۱۹:۴۳ Asia/Tehran
  • سعودی حکومت کے سلسلے میں مغربی ممالک کا دوہرا رویہ

سعودی مغرب کا اہم ترین علاقائی اتحادی اور امریکہ اور یورپ کے اسلحوں کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کے ساتھ ہی تیل کی برآمدات اور مغربی بلاک میں سرمایہ کاری میں اہم کردار ادا کررہا ہے

مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے مدنظر کبھی بھی سعودی حکومت کے انسانیت دشمن اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا- سعودی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی ایک سب سے بڑی مثال استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے -

خاشقجی دو اکتوبر کواستنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن اس سے باہر نہیں نکل سکے- سعودی حکومت کے اس ظالمانہ اقدام پر کہ جس کی اب تک کوئی مثال نہیں ملتی امریکی صدر ٹرمپ کو بھی اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اس واقعے پر پوری دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور یورپی حکام نے بھی سعودی حکومت کے اس گھناؤنے جرم پر تنقید کی ہے-

امریکی صدر ٹرمپ نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے کہا کہ ، بالکل ایسا ہی نظر آ رہا ہے- یہ بہت تکلیف دہ ہے - اس سلسلے میں فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے بھی یہ خبر دی ہے کہ انھوں نے اس وقت تک کے لئے اپنا سعودی دورہ ملتوی کردیا ہے جب تک جمال خاشقجی کی صورت حال واضح نہیں ہوجاتی - میکرون نے تاکید کے ساتھ کہا کہ میں اور ہالینڈ ، جرمنی اور برطانیہ کے رہنماؤں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک خاشقجی کی صورت حال واضح نہیں ہوجاتی اس وقت تک ریاض کا سیاسی دورہ کرنے سے اجتناب کریں گے -

 اس سے قبل بھی یورپ کے بہت سے حکام حتی امریکہ کے وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ریاض سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے - ریاض سرمایہ کاری کانفرنس آئندہ ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی ہے - حتی ٹرمپ نے بھی کہ جو اب تک کئی بار سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے کی اہمیت اور ضرورت پر تاکید کر چکے ہیں تاکید کے ساتھ خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی حکومت کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا وعدہ کیا ہے- ٹرمپ نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر واضح ہوجائے کہ خاشقجی کے قتل میں سعودیوں کا ہاتھ ہے تو  کیا نتائج سامنے آئیں گے کہا کہ ، سخت ہونا چاہئے-  تاہم مغربی ممالک کے اس طرح کے ظاہری ردعمل کے باوجود سعودی حکومت کے سسلسلے میں مغربی ممالک کے اقدامات اور رویہ کچھ اور ہے - مغربی ممالک عملی طور پر مختلف میدانوں منجملہ جنگ یمن جاری رکھنے کے لئے انھیں اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں - اس سلسلے میں اسکائی نیوز چینل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سن دوہزار سترہ میں برطانیہ نے سعودی عرب کو دوہزار سولہ کی نسبت دوتہائی زیادہ ہتھیار فروخت کئے- برطانوی حکومت نے دوہزار سترہ  میں سعودی عرب کو اسلحے بیچنے کے تقریبا ایک سو چھبیس لائسنس جاری کئے اور ایک اعشاریہ ایک سو انتیس ارب پونڈ کے ہتھیار برآمد کئے - یہ اعداد و شمار ایسے عالم میں منظرعام پر آئے ہیں کہ لندن ، برطانوی ہتھیاروں سے  یمنی شہریوں کے قتل عام کے سلسلے میں شدید دباؤ کا سامنا کررہا ہے- سعودی عرب ، یمن میں ممنوعہ ہتھیاروں کا بھی استعمال کررہا ہے جس میں کلسٹر بم بھی شامل ہے - اس ہتھیار کی فروخت ممنوع ہونے کے باوجود برطانیہ اسے سعودی عرب کو بیچ رہا ہے اور اس کے دیئے ہوئے بم اور میزائل ہر روز یمنی عوام کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں - فرانس نے بھی سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے بھاری معاہدے کررکھے ہیں -

اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغربی ممالک کو سعودیوں کے غیرانسانی اور انسانیت دشمن اقدامات پر ردعمل میں صرف ظاہری مذمت پر ہی اکتفا کرنا چاہئے یا یہ کہ اگر وہ اپنے دعؤوں میں سچے ہیں تو اپنے مادی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سعودی عرب کا اسلحہ جاتی بائیکاٹ کریں گے اور ہتھیاروں کی فروخت کے بھاری بھرکم معاہدوں کو ختم کرتے ہوئے ریاض کو ہتھیار بیچنا بند کردیں گے ۔

ٹیگس