Oct ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۶:۲۲ Asia/Tehran
  • سعودی حکومت کے جارحانہ اقدام پر، یورپی ملکوں کا شدید ردعمل

سعودی حکومت کہ جو ہمیشہ سے مغربی ملکوں کے ساتھ اپنے اچھے اور خوشگوار تعلقات کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتی رہی ہے، اس وقت ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کے باعث، عالمی سطح پر سخت مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے-

عالمی رائےعامہ اور سبھی حکومتیں اور ادارے بھی اس واقعے کی تفصیلات کے منظرعام پر لائے جانے اور اس کے تمام پہلوؤں کے واضح اور روشن ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں- اس وقت سعودیوں کے اس جارحانہ اقدام کے خلاف عالمی سطح پر بہت زیادہ ردعمل سامنے آرہا ہے اوراس میں تیزی آئی ہے۔ اور سعودی حکومت کے یورپی اتحادیوں نے بھی اس سلسلے میں نیا موقف اپنایا ہے اور بعض نےسعودی عرب کے خلاف شدید دباؤ لائےجانے کے اقدامات انجام دیئے ہیں- سعودی عرب نے میڈیا کے سخت دباؤ کے بعد، آخرکار دو ہفتے کے بعد سنیچر کو استنبول میں اس ملک کے قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل کو تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن یہ دعوی کیا ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی اطلاع کے بغیر ان کا قتل ہوا ہے اور اس سلسلے میں بن سلمان کو کـچھ علم نہیں تھا- 

سعودی مخالف جمال خاشقجی کے قتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تین یورپی ملکوں فرانس ، جرمنی اور برطانیہ نے بھی اتوار کو ایک مشترکہ بیان جاری کرکے اس قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی بھی بہانہ اس صحافی کے قتل کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ اس بیان کے ایک حصے میں کہ جو ان تینوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے انفارمیشن سنٹر کے توسط سے شائع کیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ اگرچہ چند روز سے جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے کی خبر گشت کر رہی تھی، لیکن اس خبر کی تصدیق ایک افسوسناک امر ہے۔

ان تین یورپی ملکوں نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ اس حادثے کی تحقیقات کے پورے طور پر انجام پانے اور واقعے میں ملوث عناصر کو سزا دیئے جانے تک اس کی تحقیق جاری رکھے۔ تینوں یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے طریقہ کار کے بارے میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت  کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قتل کی فوری اور درست تفصیلات منظرعام پر لائے جانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام اقدامات بروئے کار لائے جانے چاہئیں-

درحقیقت یورپی ملکوں نے سعودی عرب کو خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یہ جو سلسلہ جاری ہے، یعنی حقائق پر پردہ ڈالنے اور خاشقجی کے قتل کی توجیہ کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں یہ یورپ اور سعودی عرب کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہیں- البتہ یورپی ملکوں کی جانب سے اس موقف کے اپنائے جانے کی وجہ واضح ہے۔ یورپی حکومتیں مکمل طور پر سعودی حکومت کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ ہیں اور ساتھ ہی وہ ، یمن کے مظلوم عوام کے خلاف جنگ میں سعودیوں کے ہولناک جرائم کے سلسلے میں انسانی حقوق کی تنطیموں اوراداروں کے اعتراضات اور بیانات کا آئے دن مشاہدہ کر رہی ہیں۔

اس لئے ان ملکوں کی جانب سے اس قسم کا موقف اپنائے جانے کو، زیادہ تر یورپی اور مغربی ملکوں میں رائے عامہ کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے-  مسلمہ طور پر سعودیوں کے جارحانہ اقدامات پر کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا جانا، ممکن ہے یورپی حکومتوں کے ل‏ئے منفی نتائج کا حامل ہو- شاید یہی وجہ ہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اتوار کے روز سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں جمال خاشقجی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قتل کیس کے بارے میں جب تک تمام شبہات دور نہیں ہو جائیں گے سعودی عرب کو اسلحے کی سپلائی نہیں کی جائے گی-

اس وقت سعودی عرب، سخت و دشوار دوراہے پر کھڑا ہے اور امکان ہے کہ وہ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر اس بات پر مجبور ہوجائے گا کہ آخرکار اس جارحیت کی  ذمہ داری کو مکمل طورپر تسلیم کرلے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مغربی ممالک کہ جو انسانی حقوق کی حمایت کے نعرے لگاتے ہیں، جارح سعودی حکومت کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں۔ ماضی کے تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان ممالک نے ہمیشہ سعودیوں کے انسان سوز اقدامات کے خلاف آنکھیں بند رکھی ہیں اور سعودی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے، خاص طور پر فوجی اور اسلحہ جاتی شعبے میں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھایا ہے-   

ٹیگس