Nov ۰۹, ۲۰۱۸ ۱۹:۵۱ Asia/Tehran
  • امریکہ کا انسانیت مخالف اقدام

جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کی علیٰحدگی کے بعد 5 نومبر سے ایران کے خلاف دوسرے مرحلہ کی پابندیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ایران پر دباؤ بنانے کے لئے امریکی مہم نے نئی شکل اختیار کرلی ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جامع ایٹمی معاہدہ پر بارہا شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پابندیوں کے ذریعہ ایران کو امریکی مطالبات قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور دیگر اعلیٰ  امریکی حکام نے بھی اسی طرح کے دعوے کئے ہیں۔ ان حکام میں وزیر خارجہ مائک پومپیو بھی شامل ہیں۔ مائک پومپیو نے جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے ایران کی آمادگی کی علامات دکھائی دیتی ہیں؟ کہا کہ ”ہمیں ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی علامت دکھائی نہیں دی ہے لیکن یہ امید بہت زیادہ ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں گے۔“ مائک پومپیو نے ایران مخالف الزامات کو دوہراتے ہوئے اور ایران کی علاقائی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ  کیا کہ اگر ایران مذاکرات کے لئے تیار نہیں بھی ہوا تو اپنے رویہ کو تبدیل کر ے گا۔

بظاہر مذاکرات سے وزیر خارجہ اور دیگر امریکی حکام کا مقصد ایران کی طرف سے امریکہ کے غیر قانونی اور ناجائز مطالبات کو غیر مشروط طور پر منظور کرنا ہے۔ ان مطالبات میں، جو مائک پومپیو نے وزارت خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے ابتدائی ایام میں 12 نکاتی شرائط کے پیکیج کی شکل میں پیش کئے تھے، ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو پوری طرح سے بند کرنا اور ایران کی علاقائی پالیسیوں میں تبدیلی جیسے مسائل شامل ہیں۔ درحقیقت امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے جبکہ اس صورت میں ایران کی آزادی و خود مختاری بلکہ اس کی شناخت ہی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ امریکہ ہمیشہ ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام بھی لگاتا رہا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں تکفیری دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں امریکہ کے بنیادی کردار کے بہت سے ثبوت و شواہد موجود ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ داعش دہشت گرد گروہ کو پیدا کرنے میں اوباما حکومت کے کردار کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں۔

ایران نے امریکی دباؤ کے باوجود گزشتہ 40 سال کے دوران کبھی بھی امریکہ کی سامراجی اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے۔  امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کئی بار یہ بات کہی ہے کہ ایران کو ایک عام ملک کی طرح پیش آنا چاہئے۔ ایک عام ملک سے ان کا مقصد اصل میں ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ کا فرماں بردار ہو، سعودی عرب جیسا امریکی پالیسیوں پر عمل کرنے والا اور امریکی ہتھیاروں کا خریدار ہو۔ یہ امریکی مطالبات ایران کی عزت و آزادی کے پوری طرح سے منافی ہیں۔

در حقیقت ٹرمپ حکومت کے ذریعہ ایران پر یہ پابندیاں بنیادی طور پر غریبی اور بدامنی کی پالیسی کے تحت لگائی جا رہی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ایران پر اقتصادی دباؤ میں اضافہ ایران کے اندر بدامنی میں فروغ اور بالآخر اسلامی جمہوری نظام کے خاتمے پر منتج ہوگا۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں بد امنی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ”وہ (ایرانی) اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے تمام شہروں میں شورش ہو رہی ہے۔ ایران میں افراط زر کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ ان کا اقتصاد نابود ہوچکا ہے۔“ یہ تو ٹرمپ کے دعوے ہیں لیکن ایرانی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ٹرمپ کے دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ ادھر مائک پومپیو کے اس دعوے کی بھی کچھ اور حقیقت ہے کہ پابندیوں کا مقصد صرف حکومت کی روش میں تبدیلی لانا ہے۔ امریکہ نے پوری آگاہی کے ساتھ ایران کی معیشت، علاج معالجہ اور عوامی خدمات یا پبلک سروسز کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے جو انسانیت مخالف اور پوری طرح سے انسانی حقوق کے منافی اقدام ہے۔

 

ٹیگس