Dec ۰۵, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • ایران کے میزائل پروگرام کے بارے میں سلامتی کونسل کے اجلاس پر ایران کا ردعمل

امریکہ نے ایران کے میزائل تجربے کے بہانے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے نئی کوششوں کا آغاز کردیا ہے-

اس پروپگنڈے میں بعض یورپی ملکوں نے بھی امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے اپنی ہم آہنگی ظاہر کی ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ، ایران کے میزائل پروگرام کے سلسلے میں سلامتی کونسل کا اجلاس تشکیل دینے کے لئے بعض مغربی ملکوں کے حکام کے بیان پر ردعمل میں، اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے غلط فائدہ اٹھا کر، اپنے وعدوں کی عدم پابندی میں کوتاہی پر پردہ نہیں ڈالا سکتا- یہ بات بہت واضح ہے کہ ایران کا دفاعی میزائل پروگرام، سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 سے، کوئی منافات نہیں رکھتا-

امریکی حکام ایسی حالت میں ایران کے میزائل تجربے کو، قرارداد 2231 کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں کہ امریکی وزارت خارجہ میں ایران ایکشن گروپ کے سربراہ برایان ہوک نے بیس ستمبر کو ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں باضابطہ طور پر ایران کے ایٹمی معاہدے کی توثیق کی گئی ہے اور قرارداد 1920 منسوخ ہوگئی ہے- ایران سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی وار ہیڈز حمل کرنے والے بیلسٹیک میزائل سے متعلق کسی قسم کی سرگرمی انجام نہ دے- 

ایران کی جامع اور شفاف، دفاعی اور میزائل پالیسیوں میں ایسے کسی بھی قسم کے میزائل کی ڈیزائننگ اور منصوبہ بندی نہ تو کی گئی ہے اور نہ ہی کی جائے گی کہ جو ایٹمی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں

امریکہ اور یورپ ایسی حالت میں ایران کے دفاعی میزائل پروگرام کے تعلق سے حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ان ممالک نے علاقے کی سلامتی کو لاحق، حقیقی خطرے سے آنکھیں بند کرلی ہیں- اگر آج ایران علاقے میں امن کی کوششیں انجام نہ دیتا تو نہ صرف علاقے میں بلکہ یورپی ملکوں اور حتی امریکہ میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے اڈے ہوتے کہ جو سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے اور بعض یورپی ملکوں منجملہ فرانس کی غلطی سے وجود میں لائے گئے تاکہ علاقے اور دنیا کو بدامنی سے دوچار کریں- جس وقت امریکیوں نے بے بنیاد بہانوں سے ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے یورپ میں میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کی بات کہی، اس وقت امریکیوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایران کے ایٹمی مسئلے میں اتفاق رائے کے باوجود، یورپ میں نیٹو کے میزائل ڈیفنس سسٹم باقی رہیں گے، چاہے وہ اتفاق رائے کے ساتھ ہو یا اتفاق رائے کے بغیر- 

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس وقت ایک مقالے میں لکھا تھا کہ امریکہ کے اس طرح کے متضاد بیانات اور رویے سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ اس سسٹم کو نصب کرنے کے لئے ایران کو خطرہ بتانا ، شروع سے ہی محض ایک بہانہ تھا- روس کے نائب وزیراعظم ڈمیٹری روگوزین نے ایک یادداشت میں کنایۃ امریکہ سے کہا کہ یورپ میں میزائل ڈیفنس سسٹم باقی رہیں گے، کیوں کہ یہ سسٹم بنیادی طور پر ایران سے مقابلے کے لئے ہیں ہی نہیں-

امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف دو اسٹریٹیجک اہداف رکھتا ہے- پہلا ہدف ، ایران کی معیشت پر امریکی پابندیوں کو موثر ظاہر کرنا ہے۔ امریکہ کو اپنی ساکھ محفوظ رکھنے کے مقصد سے یورپ کی حمایت کی ضرورت ہے لیکن یورپ سے زبانی ہم آہنگی کے باوجود امریکہ پھربھی اپنے ہدف تک پہنچنے پر قادر نہیں ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے منگل کو ایران کے صوبہ سمنان کے شہر شاہرود میں کہا کہ ایرانی قوم نے ہرگز دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے اور نہ ہی کرے گی۔ ایران کی عظیم قوم نے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جنگ میں اس کی کامیابی حتمی ہے- 

امریکہ کا دوسرا مقصد، ایران کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے لیکن ایران کی فوجی صلاحیت کے خلاف امریکہ کا تفریق آمیز رویہ ، بین الاقوامی حقوق کی آشکارہ خلاف ورزی اور مداخلت پسندی کے سوا کچھ نہیں ہے-

ٹیگس