Dec ۱۹, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۵ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر شدید تنقید

انسانی حقوق کے سلسلے میں سرگرم آٹھ تنظیموں نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قیدیوں کو شکنجے دینے اور انسداد ایذا رسانی کے عالمی معاہدے کی پابندی کرے اور مذہبی بنیادوں پر قید کئےجانے والے تمام افراد کو رہا کرے-

گذشتہ ایک سال کے دوران خاص طور پر محمد بن سلمان کے ولیعہد بننے کے بعد سعودی عرب کے سیاسی سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کی گرفتاری میں اضافہ ہوا ہے جس نے آل سعود کے پرتشدد چہرے کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ سعودی عرب کے  سیاسی سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کو ہمیشہ سے آل سعود کی پر تشدد پالیسیوں کا سامنا رہا ہے- چنانچہ رپورٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز تنظیم نے حال ہی میں اعتراف کیا ہے کہ دسیوں سعودی صحافیوں اور نامہ نگاروں کو ستمبر مہینے کے اوائل سے انتہائی سخت و دشوار حالت میں قید کرکے رکھا گیا ہے ، اور انہیں کہاں قیدی بنا کر رکھا گیا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے-

یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی حکومت نے ترکی کے شہر استنبول میں واقع اپنے قونصل خانے میں، مخالف صحافی جمال خاشقجی کا انتہائی بے دردی سے قتل کرکے صحافیوں اور نامہ نگاروں کے ساتھ اپنے جارحانہ رویے کو برملا کردیا ہے۔ آل سعود حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عالمی سطح پر رعب و وحشت پیدا کردیا ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ یہ حکومت بدستور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکن ہے۔ ایسے میں جبکہ آل سعود حکومت واضح ترین اخلاقی و قانونی صلاحیتوں سے عاری ہے، دیگر ملکوں کے تعلق سے انسانی حقوق کی قراردادوں کا مسودہ پیش کرنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہے- بلاشبہ سعودی عرب اپنے پٹرو ڈالروں کے استعمال کے ذریعے  انسانی حقوق کی تنظیموں اور حلقوں میں اثر و رسوخ پیدا کرنے اوراقوام متحدہ پر دباؤ ڈال کر صرف اس عالمی ادارے کی ساکھ کو خراب کرنے کے درپے ہے- مجموعی طور پر آل سعود حکومت اپنے انسانی حقوق مخالف رجحانات اور ماہیت پر پردہ ڈالنے کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود، سعودی معاشرے میں انسانی حقوق کی شدید مخالفت سے رائے عامہ کو منحرف نہیں کرسکی ہے- 

سعودی عرب مشرق وسطی کے علاقے کا ایک با اثر ملک ہے لیکن اس کے بارے میں ایک اہم نکتہ  یہ ہے کہ سعودی عرب میں انتخابات، عوامی مشارکت اور حکومت میں عوام کے کردار کے سلسلے میں جمہوریت کے کمترین معیارات بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ سعودی عرب کے سیاسی نظام میں آل سعود کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔ سیاسی اقتدار عبدالعزیز کے بیٹوں کے ہاتھوں میں گھومتا رہتا ہے، عبدالعزیز بن سعود آل سعود کی بادشاہت کا بانی تھا۔ اس ملک میں اقتدار بھائی سے بھائی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ 

اس ملک میں عام شہریوں ، خواتین اور اقلیت اور غیر ملکی مزدوروں پر ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ آل سعود حکومت نے ثابت کردیا ہے کہ وہ میڈیا مخالف پالیسیوں اور انسانی حقوق کے مطالبات پر توجہ دینے میں کسی بھی حد اور حدود کی قائل نہیں ہے- اور اسی تشدد پسندی کے دائرے میں حال ہی میں ترکی کے شہر استنبول میں قاشقجی کو قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ آل سعود کی جانب سے میڈیا کے اہلکاروں پر تشدد کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے- سعودی عرب علاقائی میڈیا کی آزادانہ سرگرمیوں کو محدود کرنے کے درپے ہے۔  اسی تناظر میں سعودی عرب نے قطر پر فضائی، زمینی اور سمندری راستے بند کرنے کے بعد قطر کے ٹیوی چینل الجزیرہ کا دفتر بھی بند کردیا ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب نے قطر کی سائٹوں اور اخباروں کو بھی فیلٹر کردیا تھا۔

سعودی عرب کی انسانی حقوق اور میڈیا مخالف پالیسیوں پر علاقائی اور عالمی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ مسئلہ ریاض کے لئے سیاسی و اقتصادی نتائج کا بھی حامل رہا ہے چنانچہ ریاض کی سرمایہ کاری کانفرنس میں قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کے سربراہوں نے شرکت نہیں کی تھی اور اسی طرح ریاض میں خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے انتیسویں اجلاس میں بھی ان ملکوں نے شرکت نہیں کی جس سے آل سعود کے غیر منطقی اقدامات کے خلاف ان ملکوں کی ناراضگی اور غم و غصے کا پتہ چلتا ہے-

ٹیگس