Dec ۱۹, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۵ Asia/Tehran
  • ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس

شام کی آئینی کمیٹی کے تعلق سے ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی مشاورتی اجلاس جنیوا میں منقعد ہوا-

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف ، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے آستانہ مذاکرات کے ضامن ملکوں کی حیثیت سے، منگل کو اس اجلاس کے اختتام پر ایک بیان شائع کیا ۔ اس اجلاس میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن دی میسٹورا بھی موجود تھے- اس بیان میں شام کی خودمختاری اور ارضی سالمیت کے تحفظ ، اسی طرح شامی فریقوں اور اقوام متحدہ کے نمائندے کے براہ راست تعاون سے شام کی آئینی کمیٹی کے کام کے آغاز کو آسان بنانے پر تاکید کی گئی ہے- 

اسلامی جمہوریہ ایران علاقے کے ایک با اثر کردار کے حامل ملک کے طور پر شام کے بحران کے آغاز سے ہی، اس بحران کو سیاسی طریقے سے حل کرنے میں کوشاں ہے- اسی سلسلے میں آستانہ مذاکرات کا عمل، جنوری 2017 سے اسلامی جمہوریہ ایران کی جدت عمل اور روس اور ترکی کے تعاون سے، شام میں قیام امن کے مقصد سے شروع ہوا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی، روسی صدر ولادیمیر پوتین اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے رواں سال ستمبر کے مہینے میں تہران میں بارہ شقوں پر مشتمل ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اسے صرف سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے- 

تنیوں ملکوں کے سربراہوں نے اسی دائرے میں، آئینی کمیٹی کی تشکیل اور اس کمیٹی کا کام شروع کرنے میں مدد کےلئے اپنے وعدوں پر تاکید کی تھی- اس بیان کے بعد تیس جنوری 2018 کو شام کے قومی مذاکرات سوچی شہر میں منعقد ہوئے- سوچی مذاکرات، آستانہ عمل کے سلسلے کی ایک کڑی تھے جس میں شام کے امن مذاکرات کے تین ضامن ملکوں ایران، روس اور ترکی نے دسویں امن مذاکرات کے اختتامی اعلامیہ پر تبادلہ خیال کیا تھا-  دی مسیٹورا نے بھی شام کے مسئلے کے حل کے تعلق سے انجام پانے والی سفارتی کوششوں کے سلسلے میں اہم قدم کی حیثیت سے، آستانہ مذاکرات کےعمل کی حمایت کی- یہ کوششیں شام کے آئین کی تدوین کے مقصد سے ایک کمیٹی کی تشکیل کے لئے، باہمی اتفاق کے حصول پر منتج ہوئیں- 

اس اتفاق رائے کے ساتھ ہی شام کے امن مذاکرات کے ضامن تینوں ملکوں نے شام کے بحران کے سیاسی حل کے عمل کو آگے بڑھانے کے مقصد سے کوشش کی ہے کہ سوچی میں شام کی قومی مذاکراتی کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد کو آسان بنائیں- شام کی آئینی کمیٹی کی تشکیل ، ایک اہم قدم، اور حساس نیز فیصلہ کن مرحلہ ہے- جنیوا اجلاس کے شرکا نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ آئندہ سال کے اوائل میں جنیوا میں، آئینی کمیٹی کی تشکیل کے پہلے اجلاس کے انعقاد کی کوشش کریں- آئینی کمیٹی کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک سمجھوتے کے حصول کے مقصد سے،  تمام فریق کو چاہئے کہ مصالحت آمیز طریقے سے اور پرامن ماحول میں تعمیری مشارکت انجام دیں- اس طرح سے کہ اس کے نتائج کو، شام کے اکثر عوام کی حمایت حاصل ہو۔ البتہ اس سلسلے میں امید افزا اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں- 

دی میسٹورا ، آستانہ مذاکرات کے عمل کو ضمانت فراہم کرنے والے ملکوں کی جاری کوششوں کو، اس کمیٹی کی کامیابی اور شام کے مسئلے کے حل کے لئے سفارتی کوششوں کو ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں- اس کے باوجود حتمی نتیجہ، شام کی ارضی سالمیت اور حاکمیت پر، تمام فریقوں کی ہمہ جانبہ توجہ اور اسی طرح اقوام متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں کی مراعات پر منحصر ہے- جنیوا بیان سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ، سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی بنیاد پر، شامی فریقوں کے مذاکرات کی مرکزیت اور اقوام متحدہ کی نظارت سے،  آئینی کمیٹی کی تشکیل کے مسئلے کو آسان بنایا گیا ہے-

اس کمیٹی کی تشکیل کے لئے سیاسی مذاکرات کے عمل میں تمام شامی فریقوں کی شمولیت، شام کے قومی اقتدار اعلی کا تحفظ، اسی طرح آئینی کمیٹی کے اراکین کی تشکیل میں مناسب ایڈجسٹمنٹ کا ہونا اس طرح سے ضروری ہے کہ جو مختلف فریقوں کے لئے قابل قبول ہو - البتہ شام کے چند سالہ بحران کے نتائج اور مسائل کی حساسیت کے پیش نظر اس ملک کے آئین کی تدوین اور اصلاح سے متعلق زمین فراہم ہونے میں وقت درکار ہے- کیوں کہ اس ہدف کو آگے بڑھانے کے لئے تمام پہلوؤں اور آئینی کمیٹی کے فرائض سے متعلق جزئیات اور تفصیلات پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے-

ٹیگس