Jan ۰۶, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۳ Asia/Tehran
  • داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد کے جرائم جاری رہنے پر شام کا احتجاج

شام کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے سربراہ کے نام الگ الگ مراسلے میں، صوبہ دیرالزور میں امریکی قیادت میں، داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے جرائم کی مذمت کی ہے-

داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے گذشتہ ہفتے کے اواخر میں دیروالزور کے مضافاتی علاقوں پر حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں چار بچوں سمیت اکیس عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں- شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد نے جمعے کو مشرقی شام میں واقع دیرالزور کے مضافاتی علاقے الکشکیہ پر حملہ کر دیا جس میں دس عام شہری جاں بحق ہو گئے جن میں چار بچے شامل ہیں۔ دوسری جانب سانا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ کے جنگی طیاروں نے جمعرات کو شام کے مشرقی علاقے دیرالزور کے الشعفہ شہر پر بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں گیارہ شہری جاں بحق اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔

دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں بھی دیرالزور کے ایک علاقے پر امریکی اتحادی جنگی طیاروں کے حملے میں سترہ عام شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔ امریکی اتحاد کے جنگی طیارے حالیہ ہفتوں کے دوران صوبے دیرالزور کے مختلف علاقوں منجملہ ہجین پر بارہا بمباری کرتے رہے ہیں جس میں درجنوں عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی اتحاد کی جانب سے ان حملوں میں بعض اوقات فاسفورس بموں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ شام کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے چیئرمین کے نام مراسلوں میں بارہا امریکی اتحاد کے حملے بند کرائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اگست 2014 سے داعش دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے بہانے اقوام متحدہ کے اصول و قوانین کو نظر انداز کرکے اور شام کی قانونی حکومت کی ہم آہنگی کے بغیر ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل دیا ہے اور اب تک انہوں نے بہت سے بے گناہ شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا ہے چنانچہ اس صورتحال پر رائے عامہ نے سخت احتجاج کیا ہے- امریکی جرائم ایسی حالت میں جاری ہیں کہ ٹرمپ نے شام میں اپنی ناکامیوں اور رائے عامہ کے دباؤ کے تحت ایک نمائشی اور دکھاوے کے فیصلے میں اعلان کیا کہ وہ شام سے امریکی فوجیوں کو باہر نکال رہے ہیں البتہ ان کے اس فیصلے کو شام میں امریکہ کی پسپائی قرار دیا جا رہا ہے-

ٹرمپ  شام سے امریکی فوج کو نکالنے کی تاریخ اور مدت کا اعلان نہ کرکے گویا اس موضوع کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ اس کا موقع مل سکے کہ وہ مختلف بہانوں سے آئندہ دنوں میں اپنے اس فیصلے سے مکر سکیں- امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ شام میں امریکی موجودگی سے شام کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا اسی لئے شام کی تعمیر نو سے بھاگنے کے لئے امریکہ وہاں سے نکل گیا.

پروفیسر ڈینیل سیرور کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے شام سے اچانک نکلنے کا اعلان کرنے کو ترجیح دی جس کا مقصد شام کی تعمیر نو کے عمل سے بھاگنا تھا، امریکہ جب عراق سے نکل گیا تھا تب عراق میں بھی پوری طرح استحکام نہیں آیا تھا، در حقیقت یہ تمام امریکی صدور کی روایت رہی ہے کہ وہ کسی ملک کی تعمیر نو میں حصہ نہیں لیتے کیونکہ یہ ایک طویل مدت عمل ہے جس میں کافی وقت لگے گا اور خرچ بھی ہوگا.

ٹرمپ اپنی نمائشی پالیسیوں کے سائے میں، اس کوشش میں ہیں کہ علاقے میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں سے رائے عامہ کے احتجاج میں کمی لائیں تاکہ ان پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی زمین فراہم ہوسکے- ٹرمپ اپنی جارحانہ پالیسیوں کے ذریعے عالمی سطح پر تشدد کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ شام میں نام نہاد داعش مخالف اتحاد کے اقدامات کے نتیجے میں عام شہریوں کا قتل عام بھی اسی کا نتیجہ ہے اور جو ٹرمپ کی خطرناک پالیسیوں کو اقوام عالم کے گوش گذار کر رہا ہے-

اخبار الثورہ نے ایک تجزیے میں، اس سلسلے میں لکھا ہے کہ امریکی حکومت ایک بار پھر ٹرمپ کی قیادت میں مکر و فریب کے ذریعے متضاد خبریں شائع کر رہی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ وہ شام سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے کی بات کرتی ہے تو دوسری مرتبہ وہ ان فوجیوں کے شام میں مزید رہنے کا اعلان کرتی ہے-

ٹرمپ کے دور حکومت میں شکست خوردہ امریکہ گویا ایک طرح سے بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے- احمد حمادہ کے قلم کے تحریر کردہ اس تجزیے میں مزید کہا گیا ہے کہ واشنگٹن ایک طرف تو داعش سے مقابلے کا مدعی ہے جبکہ وہ مختلف شکلوں اور طریقوں سے اس دہشت گرد گروہ کو باقی رکھنے اور اسے بچانے کی فکر میں ہے تو دوسری طرف وہ اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے لڑاکا طیارے دہشت گردوں کی جانیں لے رہیں ہے جبکہ عملی طور پر ان لڑاکا طیاروں کی بھینٹ چڑھنے والے شام کے نہتے شامی ہیں-  

   

 

 

ٹیگس