Jan ۰۹, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۶ Asia/Tehran
  • امریکہ کی ایرانوفوبیا پالیسی پر جواد ظریف کا ردعمل

امریکہ اس وقت جنونی طور پر ایرانو فوبیا کو ایک خارجہ پالیسی میں تبدیل کرنے کے درہے ہے-

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو اور وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیرجان بولٹن کا رویہ، ایران کے بارے میں جنونی انسان جیسا ہے جو مسلسل شکست کھاتا جاتا ہے- ظریف کا یہ ٹوئیٹ، ایران کے سلسلے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کو بیان کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے ،جو ایرانو فوبیا کے مقصد سے علاقے کے دورے پر ہیں، منگل کے روز اردن میں ایران مخالف بے بنیاد الزامات کا اعادہ کیا- پمپئو نے امان میں ایک پریس کانفرنس میں علاقے میں ان کے بقول، ایران کے اثر و رسوخ سے مقابلے پر تاکید کی-

امریکہ، ایٹمی معاہدے پر عالمی برادری کی تاکید کے برخلاف افراتفری پھیلانے، اور اسی طرح جنون آمیز طریقے سے علاقے اور دنیا میں امن و استحکام میں مدد کے بہانے، اپنے غیر روایتی اور بیہودہ اقدامات کو  بامقصد ڈپلومیسی کی صورت میں ظاہر کرنے میں کوشاں ہے- امریکہ اپنے جھوٹے ایرانوفوبیا کے ذریعے تہران سے مقابلے کے درپے ہے- البتہ اس کی یہ اسٹریٹیجی ٹرمپ کے دور سے ہی مختص نہیں ہے- جب سے اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے اسی وقت سے ایرانو فوبیا شروع کیا گیا اور ایران کے خلاف امریکی سافٹ وار کی صورت میں، ایک ثابت عمل میں تبدیل ہوگیا- انقلاب کے صادر ہونے کا خطرہ ، دہشت گردی کو اسلامی انقلاب کے افکار سے مترادف ظاہرکرنا، اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات پر پردہ ڈالنے کے مقصد سے ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کے بارے میں پروپگنڈہ کرنا اور ایران کی جانب سے علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں جیسے بے بنیاد الزامات عائد کرنا، امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک ہتھکنڈہ رہے ہیں-

واشنگٹن میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعاون سے گذشتہ دو برسوں کے دوران، ٹرمپ انتظامیہ کے حمکرانوں کے ساتھ مذاکرات میں ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کی انتھک کوشش کی گئی ہے- چنانچہ اسی سلسلے میں ایران کے ایٹمی مسئلے اور ایرانو فوبیا کو، امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اصلی محور کی حیثیت سے متعین کیا گیا ہے- مشرق وسطی کے امور کے ماہر ولادیمیر ساژین کہتے ہیں: امریکہ ایک ایسے ایرانو فوبیا میں گرفتار ہوچکا ہے کہ جس میں سعودی عرب اور اسرائیل کی جانب سے شدت لائی جا رہی ہے-حققیت یہ ہے کہ علاقے کو امریکہ کے توسط سے طویل عرصے سے ایک ٹھوس خطرہ لاحق ہے اس خطرے کی جڑیں، امریکہ کی خارجہ پالیسی میں پیوست ہیں- امریکہ کی ایرانوفوبیا پالیسی کے تجزیے میں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حتی وہ فکری حلقے بھی جو ٹرمپ سے نزدیک ہیں، اپنے اسٹریٹیجک مسائل میں امریکہ کے لئے ایران کو خطرہ قرار دینے کی اسٹریٹیجی کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں-

سیاسی مسائل کے ماہر "کارول جیاکومو" نیویارک ٹائمز کے ایک مقالے میں، امریکی قدامت پسندوں سے متلعق ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں مائیک پامپئو کی ایک تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پامپئو نے اس تقریر میں ایران کے سلسلے میں جو بیان دیا اور جو شرائط پیش کی ہیں اس سے ظاہر ہوجاتاہے کہ ٹرمپ ایران سے کیا چاہتے ہیں ؟۔ وہ مطالبہ در اصل کیپچولیشن یعنی تسلیم ہونے کا مطالبہ ہے-

امریکہ برسوں سے ایران پر الزامات عائد کرتا آ رہا ہے-  ایران کے خلاف امریکی حکام کا پہلا بے بنیاد مفروضہ یہ رہتا ہے کہ تہران علاقے میں مداخلت پسندانہ کردار کا حامل ہے اور دوسرا مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ ایران جب بھی کوئی علمی کارنامہ انجام دیتا ہے چاہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہو یا مقامی دفاعی صلاحیتوں کے شعبے میں ، اسے علاقے کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے- لیکن یہ کیسا استدلال ہے کہ امریکہ خود علاقے میں اپنی ہرطرح کی مداخلتوں اور غاصبانہ قبضے کو کہ جس کی واضح مثال افغانستان و عراق میں اس کی مداخلتیں ہیں ، علاقے کو پرامن بنانے کے لئے کئے جانے والے اقدام کا نام دیتا ہے- 

اس وقت ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکہ کے حقیقی چہرے کو دنیا پر ظاہر کردیا ہے اور یہ وہی حقیقت ہے کہ جسے ظریف نے ایران کے سلسلے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی توصیف میں بیان کیا ہے-

ٹیگس