Jan ۱۲, ۲۰۱۹ ۱۵:۴۴ Asia/Tehran
  •  طالبان حکومت افغانستان سے براہ راست مذاکرات کریں : پاکستان

پاکستان کے وزیرخارجہ نے طالبان گروہ سے درخواست کی ہے کہ وہ قیام امن کے لئے افغان حکومت کے ساتھ براہ راست اور بلا واسطہ مذاکرات کرے-

پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد، ایک پائدار امن کے حصول کے لئے حکومت افغانستان اور طالبان سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی تاکید کرتا ہے- انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات کا جاری رکھنا ضروری ہے کہا کہ جب تک فریقین مذاکرات کی میز پر نہیں آتے اس وقت تک افغانستان میں جنگ کے خاتمے کی کوششیں ناکام رہیں گی- درایں اثنا جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سراج الحق نے بھی حکومت افغانستان اور طالبان گروہ کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کی حمایت کی ہے-  پاکستان کی جانب سے براہ راست مذاکرات کی درخواست اور سراج الحق کی جانب سے اس کی حمایت ، افغان امن کی اعلی کونسل کے سیکریٹریٹ کے سربراہ اور افغان صدر محمد اشرف غنی کے خصوصی ایلچی محمد عمر داؤد زئی کی اسلام آباد کے دورے کے موقع پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی ضرورت پر تاکید کے بعد سامنے آئی ہے - ابھی حال ہی میں امریکی منصوبے کے تحت افغان امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان کے وزیرخارجہ کے افغانستان سمیت علاقے کے ملکوں کے دورے کے پیش نظراس ملک کو تشویش ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کے حامی امریکہ کی مدد سے افغانستان کے مستقبل کے لئے کوئی پروگرام تیارکرلیں جسے کابل حکومت کو مجبورا تسلیم کرنا پڑے- 

عسکری و سیاسی امور کے ماہر عبدالہادی خالد نے اسپوٹنک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ : افغان امن کے سسلسلے میں ہونے والے کسی بھی سمجھوتے میں افغانوں کو آگے ہونا چاہئے- دوسروں کو ہمارے لئے امن قائم نہیں کرنا چاہئے دوسرے صرف اس کی زمین ہموار کرسکتے ہیں - یہ افغانوں کا بنیادی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ امن کے عمل کو افغانی بنائیں ، جنگ کو مختصر کریں اور افغانوں کے درمیان سمجھوتوں اور معاہدوں سے امن کے عمل کو کنٹرول اور اس کی قیادت کریں-

اسی بنا پر حکومت افغانستان نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اس ملک میں امن کا عمل ایک داخلی مسئلہ ہے اور اسے افغانون کے درمیان مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہئے- اس سلسلے میں پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق سے اشرف غنی کے نمائندے محمد داؤد زئی کی ملاقات نے واضح کردیا ہے کہ حکومت کابل ، پاکستان کے سیاسی اور مذہبی حلقوں سے دہری توقع رکھتی ہے- حکومت کابل بخوبی جانتی ہے کہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ ہی پاکستان کے مذہبی و سیاسی گروہ بھی طالبان میں اثر و نفوذ رکھتے ہیں اور اسی بنا پر افغان امن کے عمل کے سلسلے میں طالبان سے کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ان کی درخواست بہت کارساز ہوسکتی ہے- لیکن حکومت کابل کے لئے جو چیز اہم اور فیصلہ کن ہے وہ  پاکستان کے سیاسی و مذہبی حلقوں کی جانب سے حکومت افغانستان سے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنا ہے جو ہمیشہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی ترغیب تو دلاتے ہیں تاہم عملی شکل میں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا-

اس سلسلے میں افغانستان کے سیاسی امور کے ماہر جعفر مہدوی کا کہنا ہے کہ : افغانستان میں قیام امن کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک تنہا افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکتا-

بہرحال افغانستان میں قیام امن اور اسے انجام تک پہنچانے کا موضوع افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی کے لئے ایک اہم موضوع ہے تاکہ وہ اسے آئندہ صدارتی انتخابات میں استعمال کرسکیں- جبکہ ایسا نظر آتا ہے کہ اس عمل میں امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے افغانستان کے قومی اقتداراعلی کو نظرانداز کرنے سے افغانستان کی رائے عامہ میں یہ پیغام جائے گا کہ اشرف غنی قومی اقتدار کو نافذ کرنے میں کمزور ثابت ہوئے ہیں-اسی بنا پر انھوں نے اپنا خصوصی نمائندہ اسلام آباد بھیج کر اس سلسلے میں اپنی اور اپنی حکومت کی حساسیت کو پاکستان کی حکومت اور وہاں کے سیاسی و مذہبی حلقوں تک پہنچا نے کی کوشش کی ہے-  

ٹیگس