Jan ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ترکی کے خلاف ٹرمپ کی سخت دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کی صبح کو اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ترکی کو دھمکی دیتے ہوئے شام میں کردوں پر حملے سے بازرہنے کے لیے خبردار کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر ترکی نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد وہاں موجود کردوں پر حملے کی کوشش کی تو وہ انقرہ کو معاشی طور پر تباہ کردیں گے۔ ٹرمپ نے ساتھ ہی کردوں سے بھی اپیل  کی ہے کہ وہ ترکی کو مشتعل نہ کریں اور کہا کہ تیس کیلومیٹر کا ایک حائل علاقہ تشکیل دیا جائے گا- ٹرمپ کی اس دھمکی پر، جس کا ماضی میں ریکارڈ نہیں ملتا ، ترک حکام نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے- ترک حکومت کے ترجمان ابراہیم کالین نے ٹرمپ کے ٹوئیٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شامی کردوں کو کرد ملیشیا کے برابر اور مساوی جاننا  خطرناک غلطی ہوگیترکی چاہتا ہے کہ امریکہ، ترکی کی اسٹراٹیجیک پارٹنر شپ کا احترام کرے۔ کالین نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو تمہارا پارٹنر اور شریک نہیں ہونا چاہئے

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ انقرہ کو امریکی صدرنے یہ سخت انتباہ ، امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے گذشتہ ہفتے دورۂ ترکی میں ، ترک حکام کے ساتھ انجام پانے والے مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کے بعد دیا ہے- اس دورے میں جان بولٹن نے ترکی سے اس بات کی ضمانت لینی چاہی تھی کہ وہ کرد ملیشیا وائی پی جی پر حملے نہیں کرے گا- ترکی نے بارہا کہا ہے کہ شام کی کرد ملیشیا کا، کردستان ورکرز پارٹیپی کے کے ) سے براہ راست تعلق ہے اور جو اسلحے اور ہتھیار امریکہ نے وائی پی جی کو داعش سے مقابلے کے لئے دیئے ہیں، ان کو وہ پی کے کے کو دے رہا ہے اور اس طرح سے ترکی کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے- ابراہیم کالن کے بقول پی کے کے اور داعش کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے-

واضح رہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے دورہ انقرہ میں گذشتہ منگل کو اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ گفتگو کے بعد صراحتا خبردار کیا کہ شام میں امریکہ کے کرد اتحادیوں کے خلاف، ترک فوجیوں کے کسی بھی قسم کے غلط رویے یا ان پر حملے کا امریکہ مخالف ہے

بولٹن نے کہا کہ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا اس وقت عمل میں آئے گا کہ جب داعش کی مکمل شکست ہو اور ترکی کی جانب سے شام کے کردوں کو سلامتی کی ضمانت فراہم کی جائے- اس انتباہ پر ترکی کے سینئر حکام نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے- اردوغان نے بولٹن کی جانب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں پیش کی گئی شرطوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بولٹن بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں- اب ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ  انقرہ کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں سے جس کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ، واشنگٹن اور انقرہ کے تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے-

خیال رہے کہ 19 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ، شام سےامریکی فوجیوں کے نکالے جانے کے فیصلے کے اعلان کے بعد، بعض تجزیہ نگاروں نے اس اقدام کو ترکی کی خوشنودی حاصل کرنے سے تعبیر کیا ہے- دو امریکی تجزیہ نگاروں جان آلٹرمین  اور ویل ٹوڈ مین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے یہ اقدام، ترکی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا ہے- 

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ وہ عنقریب شام میں کردوں کے زیر انتظام علاقوں پر حملہ کریں گے اور اس اقدام سے ممکن ہے کہ مشرقی فرات میں تعینات امریکی فوجیوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجائے- اس کے علاوہ واشنگٹن ترکی کو روس سے ایس فور ہینڈرڈ میزائل سسٹم کی خریداری سے بھی روکنے کے درپے ہے اور اسی سبب سے، شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کے اعلان کے بعد واشنگٹن، ترکی کے ساتھ  ساڑھے تین ارب  ڈالر کی مالیت کے پٹریاٹ میزائل فروخت کرنے کا معاملہ کرنا چاہتا ہے-

شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان واشنگٹن کے کرد اتحادیوں کے لئے ایک بڑا جھٹکا تھا- اسی سبب سے واشنگٹن کے کرد اتحادی اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ ترکی کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے مشرقی فرات کے علاقوں میں شامی فوج سے مدد مانگیں تاکہ وہ شہر منبج اور اس کے اطراف کے کرد نشیں علاقوں میں تعینات ہو اور ان کردوں کی حفاظت کرے- نیویارک ٹائمز نے انیس دسمبر کے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی، اس جنگ میں جس کی ہار ہوگی وہ کرد ملیشا ہوگیٹرمپ کے فیصلے کے منفی نتائج کے پیش نظر ،واشنگٹن کے بعض یورپی اتحادی منجملہ فرانس نے کردوں کے لئے امریکی حمایت جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے 

درحقیقت مشرقی فرات میں کردوں کے خلاف، ترکی اور اس کی اتحادی فورسز کی کارروائیوں کے بارے میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے بار بار کاانتباہ، اور داعش کا مقابلہ جاری رکھنے کے لئے ٹرمپ کو دیا گیا اردوغان کا وعدہ،  شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کا باعث بنا-

 

 

 

ٹیگس