Feb ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۴:۲۶ Asia/Tehran
  • امریکی ایوان نمائندگان کا نمائشی اقدام

امریکی ایوان نمائندگان نے یمن کے خلاف جارح سعودی اتحاد کی جاری جارحیت کے چار سال بعد سعودی اتحاد کی حمایت کا سلسلہ روکنے کا بل منظور کر لیا ہے۔

امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں منظور ہونے والے اس بل کے حق میں دوسو اڑتالیس جبکہ مخالفت میں ایک سو ستتر ووٹ ڈالے گئے- یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جنگ چھبیس مارچ دوہزار پندرہ سے جاری ہے اور اس میں اب تک پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں- اس جنگ کے نتیجے میں پچیس لاکھ یمنی شہری بے گھر ہوئے ہیں اور اس ملک کی اسی فیصد سے زیادہ بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں-

 اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوترش وہ اہم ترین عالمی شخصیت ہیں جس نے با رہا اعلان کیا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ حالیہ عشروں کے سب سے بڑے انسانی المیے کا باعث بن چکی ہے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے جرائم کو امریکہ اور بعض مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے-  امریکی ایوان نمائندگان میں منظور ہونے والا یہ بل اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ واشنگٹن یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا سب سے بڑا حامی و مددگار ہے تاہم اس بل کے سلسلے میں کچھ اہم نکات قابل غور ہیں - سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان نے اس بل کو رائے عامہ کے دباؤ میں منظور کیا ہے-

اس بل پر عمل درآمد کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنا روک دے اور یہ وہ موضوع ہے جو امریکی صدر ٹرمپ کی ریڈلائن ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے کہہ چکے ہیں کہ جسے جہاں تک ممکن ہے دوہنا چاہئے-

 ٹرمپ نے ترکی میں سعودی عرب کے قونصلخانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے بعد بھی رائے عامہ کے سامنے کھل کر کہا تھا کہ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت سے امریکہ کے اقتصادی مفادات پورے ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ریاض کو ہتھیار بیچنے کا سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا-

 دوسرے یہ کہ اس بل کی منظوری کا مقصد یمن کے عوام کا دفاع اور حمایت کرنا نہیں بلکہ اسے سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی شخصیتوں اور اداروں کے ردعمل کے تسلسل کے طور پر منظور کیا گیا ہے-

اس سلسلے میں امریکی ایوان نمائندگان کے رکن اسٹنلی ہویر نے گذشتہ روز کہا کہ ٹرمپ قانون کو نظرانداز کرتے ہیں اور انھوں نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے ہونے والی بدنامی کے سلسلے میں ان کے موقف کے اعلان پر مبنی ممبران پارلیمنٹ کی درخواست کا جواب تک نہیں دیا ہے- تیسرے یہ کہ اس بل کی منظوری سے امریکی صدر اور ڈیموکریٹ کے درمیان موجود اختلافات کی عکاسی ہوتی ہے اور اس کا مقصد ڈونالڈ ٹرمپ پر دباؤ ڈالنا ہے- گذشتہ برس امریکی سینٹ نے یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کی حمایت بند کرنے کے لئے ایک بل منظور کیا تھا لیکن چونکہ ایوان نمائندگان میں ریپبلکنس کی اکثریت ہے اس لئے یہ بل ایوان نمائندگان میں منظور نہیں ہو سکا تھا- 

 نومبر دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس اکثریت میں آگئے اور ان کے سیاسی اہداف کے حصول کی راہ ہموار ہوگئی- 

اور آخری نکتہ یہ ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے گذشتہ روز کے بل کے لئے اس کا سینٹ میں منظور ہونا ضروری ہے-

ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اگر سینٹ اس بل کو منظور کرے گی تو وہ ویٹو کر دیں گے اور اس صورت میں اگر ایوان نمائندگان کے ممبران اس بل پر عمل درآمد کا عزم رکھتے ہوں گے تو ایوان نمائندگان اور سینٹ کے اراکین کا دوتہائی ووٹ اس ملک کے صدر کے ویٹو کو غیر موثر کردے گا- 

ٹیگس