Feb ۱۶, ۲۰۱۹ ۱۷:۱۹ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر یورپ کی ایک بار پھرتاکید

ایٹمی معاہدہ ، عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لئے بہت اہم معاہدہ شمار ہوتا ہے لیکن امریکہ اس سمجھوتے کو توڑنے کے مقصد سے مئی 2018 میں اس سے نکل گیا-

یورپی یونین کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدے کے توڑنے یا اس کو منسوخ کرنے کے منفی سیکورٹی اثرات مرتب ہوں گے اور ساتھ ہی یورپ کی سفارتکاری کی ساکھ بھی کمزور ہوگی- بریسلز، ایٹمی معاہدے کو چند فریقی معاہدے کا ایک آئیڈیل قرار دیتا ہے کہ جس سے دیگر بین الاقوامی تنازعات کے حل میں بھی بطور آئیڈیل استفادہ کیا جا سکتا ہے- اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ نے، یورپی یونین اور خاص طور پر جرمنی فرانس اور برطانیہ پر گذشتہ چںد ہفتوں کے دوران، اور خاص طور پر ایران کے ساتھ تجارت کے لئے خصوصی مالیاتی نظام انسٹیکس کے اعلان کے بعد، ایٹمی معاہدے سے نکلنے پر مجبور کرنے کے مقصد سے اپنا دباؤ مزید بڑھا دیا ہے-  یہ دباؤ وارسا اجلاس میں بھی قائم رہا اور امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپی ملکوں پر تنقید کی-

اس اجلاس کے موقع پر امریکی نائب صدر مائیک پینس کا یہ بیان کہ ایران کے بارے میں یورپ و امریکہ کے درمیان نظریاتی اختلاف پایاجاتا ہے، واشنگٹن کے ایران مخالف رویے پر یورپی یونین اور بڑے یورپی ملکوں کی بے رخی اور ایٹمی معاہدے کو منسوخ کئے جانے کے بارے میں امریکی خواہش پر ان کی مخالفت کو مکمل واضح کرتا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کے بقول، شکست خوردہ وارسا اجلاس نے اس کے اختتامی بیان کو بھی لاحاصل  اور غیر اہم دستاویز میں تبدیل کر دیا جبکہ اس بیان کا متن اس کانفرنس کے دو منتظم ملکوں کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ وارسا اجلاس کے اختتامی بیان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کانفرنس کا کوئی فیصلہ کوئی اہمیت رکھتا ہے۔

واشنگٹن کے مسلسل دباؤ کے باوجود یورپی یونین اور ایٹمی معاہدے میں شامل تین یورپی ملکوں کی جانب سے نیا موقف اپنائے جانے سے ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے ان ملکوں کے پرعزم ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے- یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے جمعے کی شام کو مونیخ سیکورٹی کانفرنس میں کہا کہ یورپ تمام تر دباؤ کے باوجود ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عملدرآمد جاری رکھے گا-

یورپی یونین کے اس موقف کی دیگر بڑے یورپی ملکوں نے بھی حمایت کی ہے- جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس نے جمعے کی رات کو میونیخ سیکورٹی کانفرنس میں ، ایٹمی معاہدے سے یورپ کے نکل جانے کی امریکی درخواست کو مسترد کردیا- ماس نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے اقدام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جرمنی نے ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اب تک ایٹمی معاہدے کی حفاظت اور اس معاہدے کو باقی رکھنے کی بہت کوششیں کی ہیں-

امریکی حکومت نے سولہ جنوری 2016 میں یعنی ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے وقت سے ہی اس معاہدے کے باقی رہنے کی راہ میں بہت زیادہ روڑے اٹکائے اور ایران کو اس معاہدے کے اقتصادی فوائد سے محروم کرنے کے لئے اپنی ناکام کوششوں کا آغاز کردیا- امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی ایٹمی معاہدے کو توڑنے اور منسوخ کرنے کی کوششوں میں بہت شدت آگئی- ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار ایٹمی معاہدے کو بدترین معاہدے کا نام دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ وہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد اس معاہدےسے نکل جائیں گے- اور آخر کار ٹرمپ منگل آٹھ مئی 2018 کو یکطرفہ طور پر اس عالمی معاہدے سے نکل گئے اور ایٹمی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اعلان کردیا- 

ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے اقدام پر عالمی سطح پر خاص طور پر ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر فریقوں نے سخت تنقید کی ہے - ایٹمی معاہدے کے رکن ممالک ایٹمی معاہدے کی حفاظت پر مسلسل زور دے رہے ہیں اور اسی سلسلے میں حال ہی میں یورپی یونین اور یورپی ٹروئیکا نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو بے اثر بنانے کے لئے خصوصی مالیاتی نظام انسٹیکس کا اعلان کیا ہے-  اگر چہ یورپی یونین کے اس اقدام سے ایران کے خلاف عائد امریکی پابندیوں پر،عملی طور پر بہت کم اثر پڑےگا  لیکن یورپی یونین کے اس اقدام سے امریکہ کے مقابلے میں یورپی ملکوں کی استقامت و مزاحمت کی نشاندہی ہوتی ہے- 

 

   

       

ٹیگس