Feb ۲۷, ۲۰۱۹ ۱۵:۰۵ Asia/Tehran
  • بحرین میں سیاسی سرگرم کارکنوں کے خلاف سخت احکامات جاری

میڈیا ذرائع نے بحرین میں سیاسی سرگرم کارکنوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے ظالمانہ احکامات جاری کئے جانے کی خبر دی ہے-

بحرین کی اپیل کورٹ نے پیر کو دو جوانوں کو پھانسی اور کئی دیگر سیاسی سرگرم کارکنوں کو عمر قید اور ان کی شہریت سلب کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں- 

بحرین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ بحرینی عوام کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے سرکچلنے والے اقدامات میں شدت آگئی ہے اور بحرین کے سرگرم کارکنوں پر مقدمہ چلانے اور ان کو سزائیں دینے کےعمل میں بہت زیادہ وسعت آئی ہے جس کے سبب تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے- بحرین میں فروری دو ہزار گیارہ سے عوامی تحریک جاری ہے اور بحرینی عوام اپنے ملک میں خاندانی آمریت کے خاتمے اور مکمل جمہوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں- بحرین کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ اسے امریکی وزارت خارجہ کی ایسی معتبر دستاویزات ہاتھ لگی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے اس وزارت نے بحرین کی وزارت داخلہ سے وابستہ انٹلی جنس کے عناصر کو منظم طور پر ٹریننگ دی ہے-

 بحرین کے ان جیلوں سے متعلق کہ جس میں بحرین کے سیاسی کارکن قید ہیں، شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ان جیلوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے اور ان رپورٹوں میں زیادہ تر بحرین کے جیلوں کی، جرمنی میں نازیوں کی حاکمیت کے دور کے جیلوں سے موازنہ کیا گیا ہے- ساتھ ہی یہ کہ شائع ہونے والی رپورٹوں میں اس مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ آل خلیفہ کے بیشتر جیلرز باہر سے لائے جاتے ہیں اور بحرین کے جیلوں میں قیدیوں کو ایذائیں دینے کے لئے خوفناک منصوبے تیار کئے جاتے ہیں - گزشتہ مہینوں کے دوران آل خلیفہ کے ذریعے عوام کو سرکوب کرنے میں شدت آئی ہے- بحرین مغربی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے تاہم انسانی حقوق کے ذرائع کے اعلان کے مطابق سب سے زیادہ سیاسی قیدی اسی ملک میں پائے جاتے ہیں- 

آل خلیفہ کے جارحانہ اقدامات نے ماضی سے زیادہ اس حکومت کی ماہیت کو برملا کر دیا ہے ایسی حکومت جس کی بنیاد ہی سرکوبی اور تشدد پر استوار ہے اور کسی بھی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے- بہرحال آل خلیفہ کی ہٹ دھرمانہ پالیسی کے نتیجے میں اس حکومت کے جیل، سیاسی سرگرم کارکنوں سے بھرے ہوئے ہیں - سیاسی سرگرم کارکنوں کے خلاف آل خلیفہ حکومت کے ظالمانہ احکام ایسے میں جاری ہو رہے ہیں کہ بحرین کے مخالف گروہوں نے اس امر پر تاکید کی ہے اس وقت  تقریبا دس ہزار سیاسی سرگرم کارکن آل خلفیہ کے جیلوں میں قید ہیں کہ جن میں سے ڈیڑھ سو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اور ان میں سے کچھ کو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے- سیاسی قیدیوں کے درمیان ڈیڑھ سو بچے بھی ہیں اور دو سو شہری آل خلیفہ کے سیکورٹی اہلکاروں کے تشدد اور شکنجے کے نتیجے میں ہاتھ پیر سے محروم ہوگئے ہیں- آل خلیفہ حکومت اپنی جارحیت میں شدت لاکر بحرینی عوام کی تحریک کو خاموش کرنے کے درپے ہے- بحرین کے عوام پرامن مظاہرہ کرکے اپنے مطالبات تسلیم کئے جانے کے خواہاں ہیں- 

دوسری جانب بحرینی عوام نے حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی آل خلیفہ حکومت کی پالیسی کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے ۔  بحرینی عوام نے مظاہرے کے دوران ایسی حالت میں کہ وہ فلسطینی پرچم اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے، بحرین کے ڈکٹیٹر آل خلیفہ اور غاصب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی تصاویر کو نذر آتش کیا۔

بعض یورپی حکومتیں بھی بھی خلیج فارس کے عرب حکام کے ساتھ خاص طور پر فوجی شعبے میں وسیع پیمانے پر تعاون کر رہی ہیں اور ان میں سے بعض حکومتوں کے بحرین سمیت ان میں سے بعض عرب ممالک میں فوجی اڈے ہیں۔ اس بنا پر ان عرب ممالک میں موجود ڈکٹیٹر حکومتوں کے کمزور ہونے سے ان ملکوں میں یورپی حکومتوں کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ان باتوں نے یورپی حکومتوں کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ آل خلیفہ کے غیرسنجیدہ اور تشدد آمیز اقدامات پر ردعمل ظاہر کریں۔ یہ امر اس بات کو بیان کرتا ہے کہ بحرین کے بارے میں مغربی حکومتوں کا ردعمل بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں بین الاقوامی تشویش کی بنا پر نہیں ہے بلکہ وہ ان ملکوں میں مغرب کے مفادات اور سیاسی مسائل کے تحت یہ ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ اس بنا پر مغرب کے نمائشی ردعمل اور موقف سے نہ صرف یہ کہ آل خلیفہ کے جرائم کم نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس سے آل خلیفہ کے تشدد میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان حمایتوں کے سائے میں آل خلیفہ کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ٹیگس