Mar ۰۳, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۵ Asia/Tehran
  • افغان فوج سے ملحق ہونے کے لئے طالبان کی شرط

قطر میں قائم گروہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے کہا ہے کہ جس وقت غیر ملکی افواج خاص طور پر امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی، طالبان گروہ اس ملک کی فوج سے ملحق ہوجائے گا-

سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا کہ جس وقت سارے غیرملکی فوجی افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں گے تواس وقت ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں آئے گا اور پھر جنگ اور جھڑپیں بھی ختم ہوجائیں گی- گروہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے افغان حکومت کے ساتھ گفتگو کو ایک داخلی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس وقت یہ گروہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے- امریکہ اور گروہ طالبان کے نمائندوں کے پانچویں دور کے مذاکرات پیر کے روز سے باضابطہ طور پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوگئے -

طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ اس وقت ان کی ترجیح یہ ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں تمام غیر ملکی فوج افغانستان سے واپس چلی جائے جس کے بعد افغان خود اپنے باہمی تنازعات بات چیت سے حل کرلیں گے۔ طالبان ترجمان کے بقول جب ان کی سرزمین پر سے امریکہ کا قبضہ ختم ہوجائے گا تو پھر وہ بااثر افغان شخصیات اور دانش وروں کے ساتھ اس بارے میں وسیع تر مشاورت کریں گے کہ مستقبل کی افغان حکومت کا نقشہ کیا ہونا چاہیے۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں پوری طرح سنجیدہ ہیں کیوں کہ ان کے بقول دونوں فریق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

 افغان فوج سے طالبان گروہ کے ملحق ہونے کی شرط کے بارے میں قطر میں قائم طالبان گروہ کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا بیان، افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد اس گروہ کے مدنظر ماڈل کا ایک حصہ ہے-  گروہ طالبان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں پائے جانے والے مبہم مسائل میں سے ایک ، افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن عمل سے ملحق ہونے کے بعد، اس گروہ کے ہزاروں افراد کی سرنوشت کا مسئلہ ہے کہ جو اس وقت افغان حکومت اور افغانستان میں موجود غیرملکی فوجیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں- خاص طور پر ایسے میں کہ جب جنگ کے خاتمے اور امن کی برقراری کے لئے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمتیار کے درمیان سمجھوتے کے بعد،  افغانستان کے سیاسی اور سیکورٹی حلقوں میں جو تشویش پائی جاتی ہے،  اس گروہ سے وابستہ مسلح عناصر کا مستقبل ہے- 

ایسی رپورٹیں بھی منظر عام پر آئی ہیں کہ جن سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ افغانستان کی حزب اسلامی سے وابستہ بعض عناصر بدستور اس ملک میں مسلح کاروائیاں انجام دے رہے ہیں اور بعض صوبوں میں بدامنی کا باعث بنے ہیں- یہی سبب ہے کہ حکومت افغانستان اور گروہ طالبان کے درمیان ممکنہ امن کے سمجھوتے کے بعد طالبان کے مستقبل کا مسئلہ ، ایک حساس اور غور طلب مسئلے میں تبدیل ہوچکا ہے- اگرچہ افغان حکومت نے گذشتہ برسوں میں، گروہ طالبان کے افغان فوج سے ملحق ہونے کے بارے میں سرکاری طور پر اپنے موقف کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن اب تک اس سلسلے میں اس کا طرز فکر منفی بھی نہیں رہا ہے-

البتہ فطری طور پر افغان عوام اور سیکورٹی اداروں کے درمیان یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغان فوج سے گروہ طالبان کے ملحق ہونے کی صورت میں ، ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے- گذشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں امن کے قیام کے عمل کے تعلق سے ایک تشویش یہ پائی جاتی ہے کہ طالبان عناصراس ملک کی فوج میں گھس کر عوام اور سرکاری فورسزکے خلاف خوفناک اقدامات انجام دے سکتے ہیں-

البتہ افغان حکومت اور طالبان گروہ کے درمیان ممکنہ امن کے حصول کے بعد، افغان فوج میں طالبان کے محلق ہونے کا مسئلہ، اس کے خطرات کی وجہ سے، حکومت کابل کی دقیق توجہ اور خصوصی احتیاط کا طالب ہے- یہ بھی نظریہ پایا جاتا ہے کہ افغان حکومت گروہ طالبان کے ساتھ پائیدار امن کے حصول کے بعد اس گروہ کے افراد کو فوج میں بھرتی کرنے کےساتھ ہی، سیکورٹی کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی ان سے کام لے گی۔ اور اس سلسلے صنعتی کارخانوں اور دیگر کاروبار میں توسیع کا منصوبہ مدنظر ہے تاکہ امن کے قیام کے بعد طالبان کو ان کے مستقبل سے لاحق تشویش کوبرطرف کیا جا سکے-   

  

ٹیگس