Mar ۰۶, ۲۰۱۹ ۱۵:۳۱ Asia/Tehran
  • ویانا میں ایٹمی سمجھوتے کے حوالے سے مشترکہ کمیشن کا اجلاس

ایٹمی معاہدہ کمیشن کا اجلاس بدھ سے ویانا میں ہو رہا ہے جس میں ایران اور گروپ چار جمع ایک کے رکن ممالک شریک ہیں-

اس اجلاس کی سربراہی اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کر رہے ہیں- یورپیوں کے ساتھ مذاکرات بذات خود ایک مثبت واقعہ ہے لیکن جس بات پر غور کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ایک بند مدار میں حرکت کرتے رہنا اور معطل رہنا ہے- ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اس طرح کے مذاکرات میں کافی وقت خرچ کیا گیا تاہم بہت کم نتیجہ نکلا جس کی بنا پر شکوک و شبہات نے جنم لیا اور مختلف سوالات کھڑے ہوئے جن کا سفارتی سطح پر اطمینان بخش جواب دیا جانا چاہئے-

اس سلسلے میں دو مسئلے کو الگ الگ دیکھنا چاہئے-

 پہلا مسئلہ ایٹمی معاہدے کے تناظر میں یورپ سے ایران کے مطالبات کا جائزہ لینا ہے اور ویانا میں ہو رہے اجلاس کا ایجنڈہ بھی یہی ہے- سید عباس عراقچی نے ویانا اجلاس شروع ہونے سے پہلے تہران میں علاقائی امور میں جرمنی کے خارجہ سیکریٹری فلیپ اکرمان سے ملاقات میں ایران کے ساتھ تجارت اور مالی ٹرانزکشن کے لئے جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے اینسٹکس نامی مالی و تجارتی لین دین کے میکانیزم تیار کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد میں تاخیر پر تنیقد کی اور کہا کہ توقع ہے کہ ایٹمی معاہدے کے عملی و واضح نتائج سامنے آنے کے لئے یورپی فریق اینسٹکس کو جلد سے جلد شروع کرنے کے لئے مزید سنجیدہ کوشش کرے گا-

 ایران کے خارجہ تعلقات کی اسٹراٹیجک کمیٹی کے سربراہ کمال خرازی نے بھی منگل کو فرانسیسی ٹھنک ٹینک کے ایک وفد سے ملاقات میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران میں رائے عامہ کے درمیان ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں یورپ پر اعتماد ختم ہوگیا ہے کہا کہ اینسٹکس پرعمل درآمد کے سلسلے میں  یورپ کا فوری اقدام ، یورپ کے خلاف موجودہ ماحول کو تبدیل کرسکتا ہے-

لیکن دوسرا مسئلہ ، وہ اقدام ہے جو ایٹمی معاہدے کے حوالے سے پائی جانے والی توقعات کو پورا کرنے کے لئے انجام پانا چاہئے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کہاں تک اس عمل کو جاری رکھے گا اور ایٹمی معاہدے کو جاری رکھنے کے لئے کوئی میکانیزم ہے بھی یا نہیں ؟ اس کا جائزہ لینے کے لئے دو نکتہ اہمیت کا حامل ہے-

 پہلا نکتہ ، ایٹمی معاہدے میں ایران کے حتمی مفادات کی ضمانت  کے لئے یورپی فریق کی جانب سے محکم و شفاف ضمانت دینا ہے- دوسرا نکتہ ، یورپ کے وعدوں پر عمل درآمد کے لئے وقت کا تعین ہے - کیونکہ موجودہ حالات میں ایران کی اقتصادی سرگرمیوں کا ایک حصہ مذاکرات کے نتائج سے مربوط  ہے-

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گذشتہ جولائی میں صدرمملکت اور کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں ملک کے اقتصادی مسائل کو ایٹمی سمجھوتے اور یورپی پیکج جیسے امور سے مربوط کرنے پر تنقید کرتے ہوئے تاکید فرمائی تھا کہ : ملک کے اندر موجود ظرفیت و توانائیوں کے مطابق کام کیجئے؛ ان کا ، ان کا انتظار نہ کیجئے- ہم نے ایک دن ملک کے اقتصادی مسائل کوایٹمی معاہدے پر ٹالا،  لیکن ایٹمی معاہدہ ہمارے اقتصادی و معاشی مسائل کو حل نہ کرسکا اور ہماری کوئی خاص مدد نہ کرسکا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام ہر کام ایٹمی معاہدے سے مشروط کرنے لگے کہ جب وہ شخص یعنی امریکی صدر ہی ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو جب تک وہ کہہ رہا ہے کہ میں باہر نکل جاؤں گا اس وقت تک منڈی میں یہی بےیقینی رہے گی کیونکہ ہم انحصار کرنے لگے ، ہم نے عوام کو انحصار کرنے کی عادی بنا دیا ہے - اور اب یہ یورپی پیکج - یورپی پیکج کے بارے میں عوام کو شرط و شروط میں نہ الجھائیں - البتہ یورپی ، مجبور ہیں ناچار ہیں ، انھیں بتانا چاہئے کہ وہ کس طرح ہمارے مفادات کی حمایت کریں گے کہ جس کا نام انھوں نے پیکج رکھا ہے- اسے ملک کے اصلی موضوعات کا حصہ قرار نہ دیں - یورپی پیکج آئے نہ آئے ، ہمیں ملک کا کام کرتے رہنا چاہئے ہمارے ملک کے اندرقدرت و توانائی ہے اسے عملی جامہ پہننا چاہئے، اس قدرت و توانائی کو اجاگر کریں ، ملک کے اقتصاد کی بہتری کو ایسی چیز سے مشروط نہ کیجئے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے-

ٹیگس