Mar ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۶:۳۵ Asia/Tehran
  • دوحہ مذاکرات میں پیشرفت کا امکان ؟؟؟

افغانستان کے صدر کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ طالبان اور حکومت افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع کرنے کے لئے انجام پانے والے دوحہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے-

افغان صدر کے ترجمان ہارون چخانسوری نے مزید کہا کہ کابل ہر اس اقدام کی حمایت کرتا ہے جو طالبان کے ساتھ حکومت افغانستان کے براہ راست مذاکرات کی زمین ہموار کردے تاہم اس سلسلے میں دوحہ مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے-

 طالبان اور امریکی مندوب کے درمیان مذاکرات کا تازہ ترین دور پچیس فروری سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع  ہوا ہے جو بدستور جاری ہے- امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان رابرٹ پلادینو کے مطابق واشنگٹن ، طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا برادر کے ساتھ چار اہم و کلیدی مسائل کے بارے میں مذاکرات انجام دے رہا ہے- انھوں نے دہشتگردی کے خلاف جدوجہد ، امریکی فوجیوں کے انخلاء ، جنگ بندی اورحکومت افغانستان و طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات، کو طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کا اصلی ایجنڈہ قرار دیا ہے- طالبان نے دوحہ مذاکرات کے ایک محور کی حیثیت سے حکومت افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اور واضح ہے کہ فریقین اس سلسلے میں بنیادی اختلافات رکھتے ہیں-

اس حقیقت کے پیش نظر کہ افغانستان میں جنگ کی آگ بجھانے کے لئے افغانستان کے بااثرگروہوں اور مرکزی حکومت کی حمایت کے بغیر امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی بھی سمجھوتہ غیر موثر واقع ہوگا اور یہ موضوع دوحہ مذاکرات کے ایک اصلی موضوع میں تبدیل ہوچکا ہے - یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان ، حالیہ مہینوں کی طرح افغانستان حکومت کے ساتھ گفتگو کو مسترد کرتے رہے ہیں- طالبان کا کابل کی مرکزی حکومت کے ساتھ گفتگو کرنے سے انکار دوحہ مذاکرات کے لئے ایک بنیادی چیلنج ہے- یہ عمل امریکہ پر تنقیدوں میں اضافے کا باعث ہوا ہے جس نے افغانستان کی قانونی حکومت کی پوزیشن اور کردار پر توجہ کے بغیر ہی طالبان سے مذاکرات شروع کئے ہیں اور اسے جاری رکھے ہوئے ہے-  ویلسن سینٹر کے تجزیہ نگار مائکل کاگلمین نے فرانس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ : واقعے کا مضحکہ خیز اور ساتھ ہی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ممکن ہے افغان حکومت جس نے خود امن کےعمل کو شروع کیا ہے اس سے الگ نہ کردی جائے- 

درحقیقت یہی موضوع باعث بنا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں امریکہ پر کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے طالبان کے ساتھ گفتگو کے لئے دباؤ بڑھ گیا ہے- حتی عالمی سطح پر بھی اکثر کا خیال ہے کہ افغانستان کی مرکزی حکومت کی غیر موجودگی میں طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات کے نقصاندے نتائج نکل سکتے ہیں- افغانستان کے امور میں فرانسیسی اسکالر چیلی دورونسورو کا کہنا ہے کہ دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت کی غیرموجودگی ، کابل حکام کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کی صورت میں افغان حکومت کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا-

البتہ طالبان اور امریکہ کے درمیان صرف یہی اختلاف نہیں ہے بلکہ فریقین دیگر مسائل منجملہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء اور وقت کے بارے میں بھی اختلاف کا شکار ہیں- افغانستان میں نامعلوم وقت تک کچھ امریکی فوجیوں کو باقی رکھنے کے بارے میں امریکی حکام کے بار بار کے بیانات یا پانچ سال کے دوران ان کے بتدریج انخلاء کا موضوع  فریقین کے درمیان اختلافات کا ایک اہم سبب ہے- امریکیوں نے ایسے وقت میں ایسا موضوع اختیارکیا ہے کہ طالبان  بارہا افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کرتے رہے ہیں- اس ماحول میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوران افغانستان میں بدامنی قابل غور ہے اور قطرمذاکرات میں عدم پیشرفت کی ایک علامت بھی  ہوسکتی ہے- اگرچہ یہ مذاکرات بدستور بند دروازوں کے پیچھے جاری ہیں لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ اگر ان مسائل میں کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوا تو وہ دیگر موضوعات میں ملنے والی ممکنہ پیشرفت کو بھی ناکام بنا سکتا ہے-

ٹیگس