Mar ۲۳, ۲۰۱۹ ۲۰:۲۴ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکی پابندیاں اور پامپیئو کی ہرزہ سرائی

دیگر ملکوں خاص طور پر واشنگٹن کے حریف اور مخالف ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ صدارت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے-

اسی سلسلے میں آٹھ مئی 2018 کو ٹرمپ کے توسط سے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے اعلان کے بعد ایران کے خلاف دومرحلے میں پابندیاں دوبارہ عائد کردی گئیں - یہ پابندیاں جو اگست اور نومبر 2018 میں لگائی گئیں ، یکطرفہ اور عالمی قوانین منجملہ سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہیں-

ان پابندیوں پر عملدرآمد کے باوجود، کہ جس کا امریکیوں کے بقول تاریخ میں کوئی ریکارڈ نہیں ملتا ، واشنگٹن بدستور ایران کے خلاف پابندیوں میں توسیع پر تاکید کر رہاہے- اسی سلسلے میں امریکی وزارت خزانہ نے جمعہ بائیس مارچ کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہونے کے الزام میں چودہ افراد اور سترہ اداروں اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں- امریکی حکام کے دعوے کے مطابق ان افراد اور اداروں کا تعلق ایران کے دفاعی اختراعات و تحقیقات کے ادارے سے ہے کہ جنہوں نے مہلک ہتھیاروں کی پیداوارکے پروگرام کو، ترقی و پیشرفت کی راہ پر گامزن کرنے میں تعاون کیا ہے - امریکی وزرات خزانہ نے اسی طرح کہا کہ جو بھی فرد یا ادارہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں تعاون کرے گا، امریکہ کی آئندہ کی پابندیوں میں اسے بھی شامل کردیا جائے گا- امریکی وزارت خزانہ " اسٹیون منوچین " نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے مقصد سے، اقتصادی شعبے کو کمزور کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائے گا- 

واشنگٹن یہ دعوی ایسے میں کر رہا ہے کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی متعدد رپورٹوں کے مطابق، ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کا بھی انحراف دیکھا نہیں گیا ہے اور ایران نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے اوراس نگراں ادارے نے بارہا کہا ہے کہ تہران نے ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے ایٹمی وعدوں پر مکمل طور پر عمل کیا ہے- ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی کرنے والے ذمہ دار اور فنی ادارے کی حیثیت سے آئی اے ای اے کے مواقف اور رپورٹیں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ امریکہ، ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایٹمی بہانوں سے نا امید ہوکر، ایٹمی معاہدے سے غیر مربوط مسائل جیسے ایران کے میزائل پروگرام اور ایران میں علاقائی کردار کو بہانہ بنا رہا ہے- 

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے میں حتی انسانی حقوق کے تحفظات کو بھی آشکارہ طور پر کنارے لگا دیا ہے اور باوجودیکہ بارہا ایران کے خلاف دواؤں اور غذائی اشیاء پر پابندی کو مستثنی قرار دینے کی بات کہی ہے تاہم پابندی کی نئی لسٹ میں دوا کی چند کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے- اس مسئلے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان پابندیوں پر عملدرآمد  سے ٹرمپ حکومت کا مقصد ، واشنگٹن کے توسیع پسندانہ مطالبات کے سامنے ایرانی قوم کو جھکانے پر مجبور کرنا ہے-

نئی پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ہی ایک بار پھر امریکی دھمکیاں اور ہرزہ سرائیاں شروع ہوگئی ہیں- اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائک پامپئو نے ایران کے خلاف امریکی وزارت خزانہ کی نئی پابندیوں کی جانب اشارہ کرتےہوئے ایک ٹوئیٹ میں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے کا دعوی کیا ہے-

پامپئو نے لکھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے مربوط افراد کے خلاف آج عائد کی جانے والی پابندیاں کہ جس میں ایران کے قدیم سائنسداں بھی شامل ہیں ، ایران کے خلاف مزید دباؤ بڑھایا جائے گا- اور ہم ایران سے مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی توانائی سلب کرنے اور اس کے غیرقانونی رویوں پر روک لگانے کے لئے مزید سخت روش اپنائیں گے- 

امریکی وزیر خارجہ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں کی پابندی کی ہے- اس کے باوجود وہ اپنے غیر منطقی اور غیر قانونی اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لئے ایران کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کر رہا ہے- ایران کے خلاف امریکی رویہ صرف زور زبردستی اور دھمکیوں پر مبنی ہے- ایران نے گذشتہ چالیس برسوں میں ہمیشہ امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اورعملی طور پر واشنگٹن کی سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا دیا ہے- ساتھ ہی ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کامیابی و کامرانی کے ساتھ امریکی پابندیوں پر غلبہ حاصل کرنے اور ٹرمپ انتظامیہ کی دشمنانہ پالیسیوں سے مقابلے کی طاقت و توانائی رکھتا ہے-        

ٹیگس