Apr ۰۱, ۲۰۱۹ ۱۹:۴۴ Asia/Tehran
  • یورپی یونین بھی مقبوضہ جولان پر اسرائیلی حاکمیت کے خلاف

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غاصب صیہونی حکومت کے ناجائز مفادات کی تکمیل کے سلسلے میں ایک غیر معمولی اقدام کے تحت گزشتہ 25 مارچ کو ایک فرمان پر دستخط کرکے شام کی مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرلی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف عالمی پیمانے پر وسیع رد عمل سامنے آیا ہے۔ صرف روس اور چین جیسی بڑی طاقتیں ہی نہیں بلکہ امریکہ کے یورپی اتحادی بھی ٹرمپ کے اس غیر قانونی اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یورپی یونین کے شعبۂ خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فیڈریکا موگرینی نے تیونس کے ایک ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت  کو تسلیم نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ ”یورپی یونین کے تمام اراکین نے یہ متفقہ موقف بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرداد نمبر 242  اور 497  کے مطابق اختیار کیا ہے۔“

غاصب صیہونی حکومت نے جون سنہ 1967ع میں عربوں کے ساتھ ہونے والی 6 روزہ جنگ کے دوران شام کی جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے دسمبر سنہ 1981ع میں اپنی سرحدوں کی سیکورٹی اور صیہونی کالونیوں کی توسیع کے بہانے ایک بِل منظور کرکے جولان کے علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا۔ مذکورہ بِل کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی تائید حاصل نہیں ہوئی تھی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 میں جولان کے علاقے کو واضح طور پر ایک مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ وہاں سے ہٹ جائے اور اس علاقے کو شام کے حوالے کردے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دسمبر سنہ 1981ع میں بھی قرارداد نمبر 497 منظور کرکے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اپنی حاکمیت اور قوانین نافذ کرنے کا اسرائیل کا فیصلہ کھوکھلا ہے اور عالمی سطح پر اس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے-

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 30 نومبر سنہ 2018ع کو جولان کی پہاڑیوں سے صیہونی حکومت  کے مکمل انخلا  کی ضرورت کے بارے میں  کثرتِ رائے سے ایک قرارداد منظور کرکے کہا کہ شام کے علاقے جولان پر اپنے قوانین مسلط کرنے کے اسرائیل کے اقدامات جائز نہیں ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

بنابریں، یورپی یونین کی اعلیٰ  عہدیدار کی حیثیت سے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حکمرانی کو تسلیم نہ کئے جانے کے بارے میں فیڈریکا موگرینی کا موقف پوری طرح سے بین الاقوامی اصول و قوانین کے مطابق ہے۔ اس سے پہلے یورپی مثلث یعنی جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے بھی ایک متفقہ موقف اختیار کرتے ہوئے ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کی تھی۔ امریکہ میں یورپی مثلث کے ممالک کے سفیروں نے امریکی حکام سے ملاقات کرکے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حکمرانی کو تسلیم کئے جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اُس کو بین الاقوامی قوانین کی کھُلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

ادھر فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے گزشتہ 29 مارچ کو اس بارے میں کہا تھا کہ مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی  حکمرانی  کو تسلیم کرنے کا امریکہ کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے اور یہ اقدام علاقے میں کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گا۔“  

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دیئے جانے اور مئی سنہ 2018ع میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے کے بارے میں بھی یورپی یونین نے اِسی طرح کا موقف اختیار کیا تھا اور اِس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔  جولان کے سلسلے میں فیڈریکا موگرینی کے تازہ واضح موقف کو یورپ اور امریکہ کے درمیان وسیع اختلافات میں اضافے کی ایک اور علامت سمجھنا چاہئے۔

اِس وقت امریکہ کو بہت مشکل حالات کا سامنا ہے کیونکہ اب اُس کے پہلے تصور کے برخلاف واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی مقبوضہ جولان کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف متحد ہیں اور اُس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ واضح ہے کہ اس صورتِ حال کے جاری رہنے سے صرف یہ ہوگا کہ امریکہ  بین الاقوامی سطح پر مزید اکیلا پڑ جائے گا اور یورپ اور امریکہ کے درمیان اختلافات کی کھائی بھی مزید گہری ہوجائے گی۔

 

 

 

 

 

ٹیگس