Apr ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۷:۳۵ Asia/Tehran
  • افغانستان میں امریکی افواج کے اعلی کمانڈر کا، طالبان پر حملے کا انتباہ

افغانستان میں امریکی افواج کے اعلی کمانڈر نے گروہ طالبان پر حملے کے بارے میں خبردار کیا ہے-

اسکاٹ میلر نے طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس گروہ نے امن اور مذاکرات کے بجائے جنگ کا انتخاب کیا ہے اس بنا پر امریکی اور نیٹو افواج طالبان سے جنگ کے لئے آمادہ ہیں- گروہ طالبان نے جمعے کے روز سے پورے افغانستان میں حملوں کی خبر دی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد اور اس سرزمین کو غاصبوں سے پاک کرنے کے مقصد سے مزید تیز کئے جائیں گے- افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر کی جانب سے امن کے بجائے جنگ کےانتخاب کے نتائج کے بارے میں گروہ طالبان کو انتباہ، طالبان کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے مذاکرات کی ناکامی کی علامت ہے- امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کے انعقاد کے باوجود اب تک دونوں فریق افغانستان میں جنگ بند کرانے یا امن قائم کرنے کے سلسلے میں کسی اتفاق رائے تک نہیں پہنچ سکے ہیں- 

گروہ طالبان، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور اس ملک میں جنگ بندی کا خواہاں ہے- جبکہ امریکہ جنگ کا خاتمہ، افغانستان سے غیر مشروط پر اپنے مکمل انخلا سے متعلق کوئی ضمانت دیئے بغیر چاہتا ہے- افغانستان میں امن کے قیام کے مسئلے پر امریکہ اور طالبان کی جانب سے الگ الگ دو مختلف مطالبے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ ان کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوجائیں-

افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر احمد سعیدی کہتے ہیں: امریکہ اور طالبان کا مذاکرات کے لئے پایا جانے والا محرک، یکسر مختلف ہے، امریکہ جنگ بندی کا خواہاں اور طالبان افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا خواہاں ہے- 

 جنگ کو امن کے عمل پر ترجیح دیتے ہوئے طالبان کے ساتھ مقابلے کے لئے امریکی فورسیز کی آمادگی کے بارے میں افغانستان میں امریکی کمانڈر کا انتباہ، اور اسی طرح افغانستان میں موسم بہار کے حملوں کے آغاز کے بارے میں گروہ طالبان کا بیان اس امر کا غماز ہے کہ دونوں فریق اس ملک میں جنگ جاری رہنے کے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور فریق مقابل سے مراعات حاصل کرنے پر مصر ہیں- یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کے اختتام کے بعد کہ جو ناکام رہے اور جس میں افغان حکومت کو دعوت نہ دینے کے باعث حکومت میں سخت ناراضگی بھی پائی جاتی ہے، صورتحال یہ ہے فریقین یعنی امریکہ اور طالبان فوجی ٹکراؤ اور جنگ کے نئے دور کے آغاز کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرکے اس کوشش میں ہیں کہ جنگ کے میدان میں برتری حاصل کرنے کے ساتھ ہی فریق مقابل کو اپنے مطالبے کے سامنے جھکنے پر مجبور کریں-

ایسے حالات میں امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کو حملے کی دھمکی دے رہے ہیں کہ بلا شبہ اس جنگ میں عام شہریوں کا قتل عام ہوگا اور افغانستان میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے-یہی سبب ہے کہ بارہا سرکاری حکام اور افغانستان کے اراکین پارلیمنٹ نے اور اسی طرح سیاسی و مذہبی شخصیات نے افغانستان کے امور میں امریکی مداخلت اور کابل حکومت کو نظر انداز کرنے کی بابت خبردار کیا ہے-

 افغان حکومت نے امریکہ اور طالبان کے مابین افغان حکومت کے بغیر مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہر اس عمل کی، جس سے افغان حکومت کو دور رکھا جائے، مخالفت کی جائے گی۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ افغان امن کے عمل میں امریکہ جب تک افغان حکومت کی موثر موجودگی کے بغیر، طالبان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات انجام دیتا رہے گا اس وقت تک ان مذاکرات میں ہونے والے ممکنہ سمجھوتے ، افغانستان کے آئین اور قومی مفادات کو نظر انداز کرنے کے باعث ، اس ملک کو بحران سے نکالنے میں کوئی مدد نہیں کریں گے-  

طالبان کے ساتھ مذاکرات میں وائٹ ہاؤس کی شکست کے بعد، افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر کا طالبان کو انتباہ کہ جو اس ملک میں جنگ اور تشدد میں اضافے کا باعث بنے گا، واشنگٹن کو ایسے حالات سے دوچار کردے گا کہ جسے اس نے سترہ سال سے زیادہ کے عرصے میں فوجی مقابلوں میں بارہا آزمایا ہے اور اسے ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے-     

ٹیگس