May ۲۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۷ Asia/Tehran
  • روس ، جرمنی اور فرانس کے سربراہوں کی ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید

ایٹمی معاہدہ JCPOA جولائی 2015 میں ویانا میں، ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان انجام پایا تھا اور اس پر جنوری 2016 سے عمل شروع ہوا تھا-

ایٹمی معاہدہ عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے دائرے میں بہت اہم سمجھوتہ شمار ہوتاہے- لیکن امریکہ، اس سمجھوتے کو نابود کرنے کے مقصد سے مئی 2018 میں اس معاہدے سے نکل گیا- واشنگٹن کے ایٹمی معاہدے کے برخلاف رویے کی، گروپ فور پلس ون یعنی روس ، چین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ اور یورپی یونین نے مخالفت کی ہے-

امریکہ ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ ایران ایٹمی معاہدے سے باہر نکل جائے۔ امریکہ کے حالیہ اقدامات کے پیش نظر روس کے صدر ولادیمیر پوتین، جرمن چانسلر انگلا مرکل اور فرانس کے صدر امانوئیل میکرون نے سہ فریقی ٹیلی فونک کانفرنس کی ہے - ماسکو میں کریملن ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ٹیلیفونک کانفرنس میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کو عالمی امن و استحکام کے تحفظ کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔ تینوں ملکوں کے رہنماؤں نے ایک بار پھر ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ 

ان ملکوں کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدے کو درھم برھم کرنے اور اس سمجھوتے کو منسوخ کرنے سے علاقے اور دنیا کی امن و سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے- جرمنی اور فرانس ایٹمی معاہدے کو کثیرالفریقی تعاون کا ایک ایسا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں کہ جو عالمی تنازعات کے حل میں بھی ایک مثالی نمونہ قرار پا سکتا ہے- روس  بھی ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے،کہ جس کے امریکی نظریات سے کافی زیادہ اختلاف پائے جاتے ہیں، اس سلسلے میں یورپی ملکوں کے نظریات سے بہت حد تک اتفاق نظر رکھتا ہے-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، شدت سے ایٹمی معاہدے کے مخالف ہیں اور بارہا انہوں نے اس سمجھوتے کو امریکہ کے لئے ایک بدترین سمجھوتہ قرار دیا ہے- ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو واشنگٹن کے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کردیا اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کردیں- ٹرمپ کے اس اقدام پر عالمی سطح پر اور خاص طور پر ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں نے وسیع پیمانے پر تنقید کی ہے-

برطانیہ کی شیڈو کابینہ کے وزیر خارجہ املی ثورنبری نے خلیج فارس میں شدید کشیدگی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے نکل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون اور بات چیت کا دروازہ بند کردیا ہے- ثورنبری نے منگل کو بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ایران کا ایٹمی سمجھوتہ پیشرفت کی جانب ایک دریچہ تھا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دریچے کو بند کردیا ہے-  یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی طور پر نکل جانے کے بعدیہ وعدہ کیا کہ وہ  ایران کے اقتصادی مفادات کی ضمانت کے ساتھ ہی اس معاہدے کی حفاظت کریں گے-  

آٹھ مئی 2018 کو امریکہ کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بعد، ایران کو توقع تھی کہ گروپ فور پلس ون کے اراکین خاص طور پر یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین، امریکہ کے توسط سے دوبارہ ‏عائد کی گئیں ایٹمی پابندیوں کے اثرات میں کمی لانے کے لئے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران بعض دکھاوے کے اقدامات اور بہت سے وعدے کرنے کے علاوہ یورپی یونین کی جانب سے کوئی بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے-  ایران نے یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین کے اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کی بعض شقوں پر عملدر آمد روک دیا ہے اور ان کو ساٹھ دن کی مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں-

یورپ کی نگاہ میں ایٹمی معاہدہ، یورپ کی سفارتی کامیابی کی بھی اہم سند کی حثیت رکھتا ہے اور اس کی ناکامی، عالمی سطح پر یورپ کی سب سے بڑی سیاسی اور سفارتی شکست کے مترادف ہو گی۔ لیکن عملی طور پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپ اپنی ساکھ کی خاطر بھی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ یورپ کے اسی رویے پر ایران نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ایران کے ردعمل کے تناظر میں یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کونسل نے، ایٹمی معاہدے کے  حوالے سے ایران کی پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یورپی یونین سے تہران کی مقرر کردہ مہلت پر توجہ دینے کی اپیل کی ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ تعلقات کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق ایران کا ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اٹھایا گیا قدم، اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہے نہ کہ اس عظیم عالمی معاہدے کو ختم کرنے کے لئے - لیکن ایران اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ صورتحال ناقابل قبول ہے- یورپیوں کو خود معلوم ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور اگر جلد ازجلد اس انتہائی اہم سمجھوتے کی حفاظت کے لئے بنیادی قدم منجملہ ایران کے ساتھ مخصوص مالیاتی نظام انسٹیکس سے موسوم سسٹم کو نافذ نہ کیا ، تو پھر اس معاہدے میں ایران کے باقی رہنے کی امید بھی نہ رکھیں-

ٹیگس