Jun ۰۷, ۲۰۱۹ ۲۰:۵۱ Asia/Tehran
  • سوڈان کا بحران اور مستقبل

سوڈان کے بحران میں شدت اور تشدد میں اضافے کے بعد افریقی یونین نے سوڈان کی رکنیت منسوخ کردی ہے۔

سوڈان میں 11 اپریل کو شروع ہونے والے بحران میں شدت پیدا ہونے اور ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے کے بعد، جن میں متعدد مظاہرین ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، افریقی یونین نے متحارب گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے مقصد سے یونین میں سوڈان کی رکنیت  کو منسوخ کردیا ہے۔

سوڈان میں 11 اپریل کو جو بحران، فوجی بغاوت اور صدر عمر البشیر کو اقتدار سے  بےدخل کرنے نیز ایک فوجی کونسل تشکیل دینے کے بعد شروع ہوا تھا، اب وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ بحران شروع ہونے کے بعد سے ملک کی باگ ڈور بدستور فوجیوں کے ہاتھ میں ہے جبکہ سوڈانی عوام اور سیاسی جماعتیں اقتدار فوری طور پر غیر فوجی افراد کو منتقل کئے جانے اور جمہوری انتخابات کے انعقاد کی خواہاں ہیں۔ بنابریں، سوڈان میں احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

فوجی کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ فوجی کونسل نے آزادی و تبدیلی اتحاد یا الائنز فار فریڈم اینڈ چینج کے ساتھ مذاکرات روکنے اور اس اتحاد کے ساتھ پہلے جو بھی طے پایا تھا اس سے علیٰحدگی  کا فیصلہ کیا ہے۔

مذاکرات رُکنے کے بعد حکومت مخالفین نے سول نافرمانی کا اعلان کیا ہے اور مظاہرین سے دھرنا دینے کی اپیل کی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ فوجی کونسل کا طریقۂ کار ملک میں جمہوریت کے قیام کا راستہ ہموار کرنے والا ہے اور نہ ہی قوانین کے مطابق  ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ فوج نے بغاوت کرکے حکومت مخالف تحریک پر قبضہ کیا اور عوام کے عزم و ارادے کے خلاف اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔  سوڈان کی کان‍گریس پارٹی نے اس سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ ”فوجی کونسل کے اقدام نے ہمیں ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ باقی بچے اور وہ یہ کہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک انقلاب کو جاری رکھنا ہے۔“

احتجاج کا سلسلہ جاری رہنے سے سوڈان کی سیاسی فضا تبدیل ہوگئی ہے۔ سوڈان کی موجودہ حکمراں فوجی کونسل نے ایک بیان جاری کر کے مظاہرے کے مقام کو جرم و جرائم کا مرکز قرار دیا اور مطاہرین پر گولی چلا دی۔ سوڈانی حکام نے رواں ہفتے کے اوائل میں جمہوریت پسند مظاہرین پر سیکورٹی فورسز کے حملے میں 46 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے لیکن با خبر ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد کم سے کم 100 بتائی ہے۔ یہ ہلاکتیں، جو فوجی کونسل کے سربراہ عبدالفتاح البرہان کی مکہ اجلاس سے واپسی کے بعد اور اُن کے حکم پر ہونے والی گولی باری میں ہوئی ہیں، حکومت مخالفین کی مزید برہمی کا سبب بنی ہیں۔ سوڈان کی سیاسی پارٹیاں اپنے ملک  کے داخلی امور میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے فوجی کونسل کی حمایت کے وعدے اور اُسی کے اشارے پر مظاہرین کو حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

سوڈان کے جمہوریت حامی ایک سیاسی اتحاد نے، جو سوڈان میں ہونے والے احتجاج میں شامل ایک اصل گروپ ہے، ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سوڈان کے بحران سے خود کو الگ کرلیں اور فوجی کونسل کی حمایت کرنا بند کردیں۔ ان تینوں ممالک  کا یہ اقدام ان کے اپنے مفادات کی خاطر اور سوڈان اور سوڈانی عوام کے مفادات کے خلاف ہے۔“

سوڈان کی فوجی کونسل نے آئندہ 9 ماہ میں ملک میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے لیکن حکومت مخالفین فوجی کونسل کے طریقۂ کار کے تئیں برہم ہیں اور کہا ہے کہ وہ فوجی کونسل سے مقابلے کے لئے سول نافرمانی اور ہر پُرامن طریقہ استعمال کریں گے۔ ان حالات میں ایسا لگتا ہے کہ سوڈان میں سخت حالات جاری رہیں گے، ہاں اگر دونوں فریق مفاہمت اور موجودہ بحران سے نکلنے کے مقصد سے مذاکرات پھر سے شروع کردیں تو حالات بدل بھی سکتے ہیں۔

 

ٹیگس