Jul ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۵:۴۰ Asia/Tehran
  •  بحرینی وزیر خارجہ کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقراری کا اعتراف

بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد بن محمد آل خلیفہ نے ایک بار پھر غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مغربی ایشیا میں حقیقی امن کی بنیاد قرار دیا ہے۔

غاصب اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا طور پر باقاعدہ تعلقات کی برقراری میں بحرین کی دلچسپی نہ صرف ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ بحرین کی آل خلیفہ حکومت یہ تعلقات جلد سے جلد قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ  بات بحرینی حکومت کے رویہ اور حالیہ مہینوں میں بحرینی وزیر خارجہ خالد بن احمد بن محمد آل خلیفہ کے  بیانات سے واضح ہے۔ مثال کے طور پر بحرین نے حال ہی میں 25 اور 26 جون کو دارالحکومت منامہ میں امریکی منصوبے سینچری ڈیل کے سلسلے میں ایک اقتصادی کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ یہ منصوبہ واضح طور پر اسرائیل کے اہداف و مقاصد کے مطابق اور  فلسطینی کاز سے تضاد رکھتا ہے۔ اسی بنا پر خود بحرین میں اور بحرین سے باہر بھی آل خلیفہ حکومت اور منامہ کانفرنس کے خلاف متعدد مظاہرے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں، بحرینی وزیر خارجہ خالد بن احمد بن محمد آل خلیفہ نے منامہ کانفرنس کے موقع پر بعض اسرائیلی ذرائع ابلاغ  کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے بحرین کے فیصلے کی خبر دی تھی۔ بحرینی وزیر خارجہ نے بدھ کے روز بھی ایٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کی نشست میں، جس میں ایرانی امور میں امریکی صدر کے خصوصی نمائندے بریان ہُک بھی موجود تھے، ایک بار پھر کھلم کھلا اعلان کیا کہ اسرائیل سے رابطہ مغربی ایشیا میں حقیقی امن کی بنیاد ہے۔ اسرائیلی ٹی وی چینل نمبر 13 نے بھی اِسی سال فروری میں کہا تھا کہ بحرینی بادشاہ اسرائیل کے ساتھ سرکاری اور واضح سفارتی تعلقات کے خواہاں ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقراری میں بحرین کی دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں کچھ اہم باتیں قابل ذکر ہیں۔

اول؛ بحرین خلیج فارس علاقے کا کمزورترین عرب ملک ہے جس کی خارجہ  پالیسی میں نہ صرف عزت و خود مختاری نہیں ہے بلکہ بحرین کی خارجہ پالیسی واشنگٹن اور ریاض میں لکھی جاتے ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری میں بحرین کی دلچسپی در اصل ان تعلقات کی برقراری میں سعودی عرب کی دلچسپی ہے لیکن چونکہ عالم عرب میں اس کو جو مرکزیت حاصل ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں رائے عامہ کی حساسیت سے بھی وہ آگاہ ہے اس لئے اس نے بحرین کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے لئے آگے بڑھایا ہے۔ ادھر امریکہ نے بھی اپنی ایران مخالف پالیسی جاری رکھنے کو اسرائیل کے ساتھ بحرین سمیت عرب ممالک کے تعلقات کی برقراری سے مشروط کیا ہے۔

دوم؛ آل خلیفہ حکومت کو فروری سنہ 2011 سے اب تک عوامی احتاج کا سامنا ہے اور اس نے احتجاج سے مقابلے کے لئے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل سے مدد حاصل کی ہے۔ داخلی مخالفین اور مظاہرین سے مقابلے کے لئے آل خلیفہ کی حمایت جاری رکھنے کی شرط اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کی برقراری ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے زیادہ عرصے سے بحرین کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان خفیہ تعلقات کو آشکار تعلقات میں بدلنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے خود بحرین کے اندر عوامی مقبولیت کے بحران سے نمٹنے کے لئے بیرونی، خاص طور سے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت پر تکیہ کر رکھا ہے اور اس کے عوض وہ اسرائیل کے ساتھ آشکار تعلقات قائم کرنے کا پابند ہے۔

آخری بات یہ کہ بحرینی وزیرخارجہ کا یہ دعویٰ کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات امن کی بنیاد ہے ایسے حالات میں ہے کہ اسرائیلی مفادات مغربی ایشیا کے علاقے میں، خاص طور سے عرب ممالک کے مابین، تشدد پھیلنے میں ہے۔

ٹیگس