Aug ۰۴, ۲۰۱۹ ۱۷:۴۰ Asia/Tehran
  • یورپی یونین بھی امریکی  بحری اتحاد کے حق میں نہیں

خلیج فارس میں امریکہ کی اشتعال انگیزی کے باعث کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی بنا پر امریکہ اور برطانیہ ایک بحری اتحاد بنانے کی کوشش میں ہیں۔

خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اس جیو اسٹریٹیجک علاقہ میں کشیدگی بڑھ جانے اور آبنائے ہرمز میں جہاز رانی کے قوانین کی کُھلی خلاف ورزی کئے جانے پر ایران کے ذریعہ برطانوی تیل بردار بحری جہاز روکے جانے کے بعد امریکہ اور برطانیہ خلیج فارس میں جہازرانی کی نام نہاد سیکورٹی کے لئے ایک بحری اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

البتہ یورپی یونین نے کُھلم کُھلا طور پر امریکہ اور برطانیہ کی اس کوشش کی مخالفت کا اظہار کر دیا ہے۔ یورپی یونین کے شعبۂ خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کی خصوصی مشیر ناتالی توچی نے اس سلسلہ میں آبنائے ہرمز اور خلیج فارس میں آزادانہ جہاز رانی کو یقینی بنانے کے مقصد سے ہر طرح کے فوجی اقدام کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”واضح ہے کہ خلیج فارس میں فوجی کارروائی سے ایران کے ساتھ لڑائی کے امکان میں اضافہ ہوجائے گا۔ جب تک ایران کے ساتھ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعہ بحری جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت یقینی بنی رہے گی تب تک یورپی ممالک اسی طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے۔“

خلیج فارس میں سیکورٹی کے قیام  کے بارے میں، خاص طور سے  آزادانہ جہاز رانی کے بارے میں، امریکی نظریہ سے یورپی یونین کا موقف بالکل مختلف ہے۔ امریکہ غیرعلاقائی مداخلت پسند طاقت کی حیثیت سے ایرانو فوبیا کو ہوا دے کر علاقہ میں اپنی موجودگی اور علاقائی اتحادوں  کی تشکیل کا جواز پیش کرنا چاہتا ہے۔ اسی سلسلہ میں آبنائے ہرمز میں برطانوی تیل بردار بحری جہاز ”اسٹینا امپیرو“ روکے جانے کا مسئلہ خلیج فارس میں ایک بحری اتحاد کی تشکیل کے لئے امریکہ اور اس کے اسٹریٹیجک اتحادی ملک یعنی برطانیہ کے ایک حربہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔

امریکہ نے بعض یورپی ممالک سمیت اپنے اتحادی ممالک کی مشارکت سے ایک بحری اتحاد کی تشکیل کے لئے بہت کوشش کی ہے لیکن جرمنی اور فرانس جیسے اہم ممالک اور جاپان جیسے بعض ایشیائی اتحادیوں نے امریکہ کو اس سلسلہ میں منفی جواب دیا ہے۔ ایک اور یورپی ملک اسپین نے بھی امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت کر دی ہے۔ یہی نہیں، اسپین نے خلیج فارس میں امریکی بحری مشقوں میں شامل اپنے بحری بیڑے کو بھی ان مشقوں سے الگ کر لیا ہے۔

بہت سے ممالک کا خیال ہے کہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والا بحری اتحاد علاقہ میں کشیدگی میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ سیاسی تجزیہ نگار اہم یورپی ممالک اور یورپی یونین کے واضح موقف کو امریکہ کی ایران مخالف کوششوں پر کاری ضرب سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکہ کا مقصد، جس کو ایران کے خلاف حالیہ فوجی اقدام میں اپنے جدید ترین اور نہایت مہنگے جاسوس طیارے ”گلوبل ہاک“ کی سرنگونی کا سامنا کرنا پڑا، یہ ہے کہ وہ خلیج فارس میں اپنے اتحادیوں کے مفادات کے تحفظ میں براہ راست ملوث نہ ہو۔

ٹرمپ حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ خلیج فارس میں آزاد جہازرانی کی نام نہاد کوشش اور فوجی موجودگی کے سلسلہ میں ہونے والا خرچہ وہ اکیلا برداشت نہ کرے بلکہ اس کو اپنے عرب اور یورپی اتحادیوں میں تقسیم کرے۔ ادھر نہ یورپی یونین اور نہ ہی اہم یورپی ممالک خلیج فارس میں جنگ و جدال چاہتے ہیں اور ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ بحری اتحاد کے قالب میں ایران کے مقابل کشیدگی بڑھانے کا کام عقل مندی کا کام نہیں ہے۔

یورپی ممالک  کو بخوبی معلوم ہے کہ خلیج فارس میں جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت کے منصوبہ کی حمایت کا مسئلہ ٹرمپ حکومت کی  ”زیادہ سےزیادہ سے دباؤ“  کی پالیسی کے تحت ایران کے خلاف دباؤ میں اضافہ کے لئے امریکہ کا صرف ایک حربہ ہے۔ اسی لئے وہ امریکہ کے کھیل میں شریک ہونا نہیں چاہتے۔ جبکہ اب خلیج فارس میں ایران کو مکمل بحری کنٹرول حاصل ہے اور وہ اس وسیع آبی راستے میں جہازرانی کی ازادی اور سیکورٹی کا ہمیشہ ضامن رہا ہے۔ ”فارین پالیسی“ جریدہ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ”ایران کے پاس خلیج فارس کی سیکورٹی کا لمبا تجربہ ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ کو اپنی کوششوں میں یہ نکتہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے میں مشکوک اتحادوں کی تشکیل کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ ایران نے بارہا تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ خلیج فارس کے علاقہ کی سیکورٹی علاقہ کے ممالک کا کام ہے۔“

ٹیگس