Aug ۰۷, ۲۰۱۹ ۱۸:۴۴ Asia/Tehran
  • افغانستان میں صدارتی انتخابات کے عدم انعقاد پر طالبان کی تاکید

گروہ طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس لحاظ سے کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے عمل کی غیرملکیوں کی جانب سے حمایت اور نظارت ہو رہی ہے اس لئے یہ گروہ ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ انتخابات کامیابی کے ساتھ منعقد ہوں-

طالبان گروہ نے اس بیان میں اسی طرح افغانستان کے انتخابات کو دغابازی بتایا اور کہا کہ یہ انتخابات افغانستان کے عوام کو دھوکہ دینے اور بعض سیاستدانوں کی ذاتی خواہش کی تکمیل کے سوا اور کچھ نہیں ہیں- اس بیان میں کہا گیا ہے کہ گروہ طالبان انتخابات کے نامزد امیدواروں کی مہم کو نشانہ بنائے گا اور لوگوں کو چاہئے کہ نامزد امیدواروں کی مہم سے خود کو دور رکھیں- 

طالبان کا انتخابات مخالف یہ بیان، وہ بھی دوحہ مذاکرات کے آٹھویں دور کے بعد، حالیہ برسوں میں افغانستان میں رونما ہونے والے اہم ترین سیاسی مسائل پر امریکہ کے ساتھ گروہ طالبان کی ملی بھگت کی علامت ہے- اگرچہ طالبان نے اس سے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں شرکت نہیں کرے گا لیکن یہ بیان، جس میں انتخابی مہم کو نشانہ بنانے اور انتخابات کا انعقاد نہ ہونے دینے کی بات کہی ہے، ایک نیا فیصلہ ہے کہ جسے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے بعد سنجیدگی سے لئے جانے کی ضرورت ہے-

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے عمل سے جو بات اب تک باہر آئی ہے یہ ہے کہ یہ مذاکرات محض افغانستان کے دلدل سے خود کو باہر نکالنے کی امریکی کوشش ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ  نے افغانستان کے تمام بااثر گروہوں، اس ملک کی حکومت ، علاقے کے ملکوں اور مسلح مخالفین سے مذاکرات کرنے کے بجائے صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے- 

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی اصلی وجہ، کہ امریکہ افغانستان کے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے افغانستان کے دلدل سے خود کو نکالنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، اس ملک کی طولانی ترین جنگ کی ناکامی اور شکست کی علامت ہے- 

امریکہ کا یہ طرز عمل اور افغانستان کے سیاسی حقائق کو قبول کرنے کے لئے طالبان پر دباؤ ڈالنے سے امریکہ کا انکار، اس امر کا باعث بنا ہے کہ یہ گروہ ہر اس چیز کو جسے وہ جنگ کے میدان میں حاصل نہیں کرسکا ہے مذاکرات کی میز پر پیش کرے- انتخابات ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے انعقاد کو طالبان گروہ موجودہ حالات میں ، اور امریکہ کے ساتھ کسی اتفاق رائے کے حصول تک، اپنے مفادات کے منافی سمجھ رہا ہے خاص طور پر ایسے میں کہ جب طالبان نے درپیش انتخابات میں اپنا کوئی نمائندہ بھی متعارف نہیں کیا ہے-

ایسے حالات میں یہ فطری امر ہے کہ طالبان کی جانب سے  انتخابات نہ ہونے دینے پر اصرار کو امریکہ کی جانب سے ہری جھنڈی دیکھایا جانا قرار دیا جا سکتا ہے - امریکیوں نے گذشتہ مہینوں کے دوران کبھی بھی افغانستان میں انتخابات کو ریڈ لائن کے طور پر ذکر نہیں کیا ہے اور یا امن مذاکرات جاری رہنے کو انتخابات کے انعقاد سے مربوط نہیں کیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی، طالبان کے اس عوام مخالف مطالبے پر راضی ہیں اور طالبان کی حمایت کر رہے ہیں- ایسے حالات میں بہت سے ماہرین، طالبان کے ساتھ امریکہ کے ممکنہ معاملے کو ، اس ملک کو تاریک دور کی جانب لے جانے سے تعبیر کر رہے ہیں-

تجزیہ نگار فرید ذکریا سی این این ٹیلیویزن کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ٹرمپ کا معاملہ ، اٹھارہ سال کی ایک بے نتیجہ جنگ کے بعد ممکن ہے افغانستان میں ایک بار پھر جنگ کے شدت پکڑنے اور دہشت گرد گروہوں کے مستحکم ہونے پر منتج ہوجائے- یہ صورتحال افغان قوم کو ایک اور پریشانی و حیرانی میں مبتلا کردے گی اور ممکن ہے کہ امریکہ کو مجبور کردے کہ وہ دوبارہ اپنے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد میدان جنگ میں واپس لے آئے-

اس امریکی مصنف اور ماہر کے بقول جو راستہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اختیار کیا ہے وہ کابل حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات پر ختم ہونا چاہئے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات اب تک ، افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ،اس ملک میں جنگ بندی اور افغانستان کی داخلی صورتحال کے بہترنہ ہونے پر منتج ہوئے ہیں- اسی سبب سے افغان معاشرے کو ہر چیز سے پہلے یہ توقع ہے کہ امریکہ کہ جس نے افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل سے دور رکھا ہے کم از کم اس اہم مسئلے میں یعنی انتخابات کے خلاف طالبان کی دھمکی کے تعلق سے واضح موقف اپنائے اور اگر دال میں کالا نہ ہو تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کو، انتخابات کے انعقاد سے اس گروہ کی موافقت کے وقت تک ملتوی کردے-

ٹیگس