Aug ۰۷, ۲۰۱۹ ۱۸:۴۵ Asia/Tehran
  • شام اور عراق میں داعش کی فعالیت جاری رہنے پر پنٹاگون کی تاکید

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انیس دسمبر 2018 کو کہا تھا کہ امریکی فورسیز شام سے خارج ہو رہی ہیں-

 انہوں نے اپنے بیان میں یہ دعوی کیا تھا کہ اس کی وجہ، شام میں داعش دہشت گرد گروہ کو ملنے والی شکست ہے- اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے 22 مارچ 2019 کو ایک بیان میں شام میں داعش کے آخری ٹھکانے کو بھی ختم کرنے کی خبر دی-  شام میں داعش کی شکست کے ٹرمپ کے دعوے کے باوجود امریکی وزارت دفاع نے بدھ سات اگست کو اعلان کیا کہ داعش دہشت گرد گروہ کے افراد بدستور شام اور عراق میں موجود ہیں اور ان ملکوں میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دے رہی ہیں- امریکہ کی وزارت دفاع کی سرکاری ویب سائٹ Operation Inherent Resolve= OIR کی رپورٹ کے مطابق داعش کے افراد بدستور شام سے منتقل ہو رہے ہیں اور عراق میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں-

Operation Inherent Resolve= OIR ایک ایسا فوجی آپریشن ہے کہ جس بارے میں امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ یہ کاروائی اگست 2016 سے انجام دے رہا ہے- کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس آپریشن انہیرنٹ ریزالو کے مشترکہ ورکنگ گروپ کے تخمینے کے مطابق اس وقت تقریبا چودہ سے اٹھارہ ہزار داعشی، عراق اور شام میں موجود ہیں اور تین ہزار سے زیادہ ایسے افراد ہیں جو دوسرے ملکوں سے آکر داعش میں شامل ہوئے ہیں-

پنٹاگون کی حالیہ رپورٹ ، داعش کی حتمی شکست کے بارے میں ٹرمپ کے دعووں اور اظہار خیال کے برخلاف ہے- ٹرمپ نے بارہا یہ دعوی کیا ہے کہ امریکہ داعش کو ختم کرنے کا عہد کئے ہوئے ہے اور دہشت گردی کے مقابلے میں عوام کا دفاع کرے گا- ٹرمپ کا یہ دعوی زمینی حقائق کے برخلاف ہے- ٹرمپ نے خود 2016 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اوباما حکومت کو داعش دہشت گرد گروہ کو وجود میں لانے کا باعث قرار دیا تھا - درحقیقت امریکی حکومت خود ہی داعش کو جنم دینے والی اور اس کی اصلی حامی ہے- 

 2011 میں شام کا بحران وجود میں آنے کے بعد سے، مغربی اورعرب اتحاد میں سر فہرست امریکہ نے اپنے مدنظر اہداف کو حاصل کرنے کے لئے انتہا پسندوں اور داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں  سے مقابلے کے بجائے ان کی حمایت کی- سیاسی ماہر ایوان ایپولیتوف کے بقول حالیہ برسوں میں امریکہ کا مقصد،اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لئے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو آلۂ کار کے طور پراستعمال کرنے کے ذریعے مشرق وسطی کے ممالک کو کمزور کرنا اور دہشت گردی و انتہاپسندی کو فروغ دینا رہا ہے-

شام میں امریکہ کی کارکردگی سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ 2011 سے 2014 تک جس طرح سے داعش دہشت گرد گروہ نے شام کے مختلف علاقوں کے علاوہ عراق کے بھی بعض شہروں اور علاقوں پر قبضہ کیا ہے ،اس دوران امریکہ نے بھرپور طریقے سے ان کی حمایت کی ہے اور داعش سمیت دیگر تکفیری دہشت گرد گروہوں کا مالی اور لاجسٹیک تعاون کیا ہے- جون 2014 سے داعش مخالف نام نہاد عالمی اتحاد کی تشکیل کے وقت سے ہی امریکہ کا مقصد ایک معین فریم ورک میں داعش کی حفاظت کرنا رہا ہے تاکہ اسے شام کی حکومت اور فوج اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرسکے-

اس طرح سے داعش سے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ کی حقیقت سب پر برملا ہوچکی ہے- ساتھ ہی ٹرمپ نے اس سے پہلے یہ اظہار خیال کیا تھا کہ شام میں داعش کے خلاف امریکہ کی جدوجہد ایران اور روس کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے اخراجات پر ٹرمپ نے انگلی اٹھاتے ہوئے اسے بے سود قرار دیا تھا- درحقیقت امریکہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران، شام کی حکومت کے مخالفین اور دہشت گرد گروہوں کا حامی رہا ہے تاکہ بشار اسد کی قانونی حکومت کوگرادے لیکن وہ اپنا یہ مقصد حاصل نہیں کرسکا ہے اور اب جبکہ داعش گروہ مکمل طور پر کمزور ہوچکا ہے، اس پر کامیابی حاصل کرنے اور اس سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا ٹرمپ کا دعوی بالکل کھوکھلا اور ناقابل قبول ہے- 

شام میں امریکی کارکردگی کا جائزہ لینے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن داعش کو اپنے آلۂ کار کے طور پر دیکھتا ہے - بالفاظ دیگر امریکہ اگر چہ داعش سے مقابلے کا دعویدار ہے لیکن ہمیشہ یہ جدوجہد ایک معینہ حد تک رہی ہے اور کبھی بھی وہ داعش کی نابودی کی جانب نہیں بڑھا ہے- اس طرح سے واشنگٹن کا یہ خیال ہے کہ وہ جب بھی چاہے گا داعش کے افراد کو،  جو پنٹاگون کے دعوے کے مطابق کئی ہزار ہیں، شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرے گا یا پھر دہشت گرد گروہوں کی کاروائیاں انجام دینے کے لئے حالات سازگار بنانے کی غرض سے شام اور عراق میں امریکہ مخالف فورسیز پر دباؤ ڈالے گا-   

ٹیگس