Aug ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۹:۱۱ Asia/Tehran
  • شام کے بارے میں ترکی کی پالیسوں پر تنقید کا سلسلہ جاری

ترکی کی ریپبلکن پیپلز پارٹی، سی ایچ پی، کے سربراہ کمال قلیچ دار اوغلو نے شام کے بارے میں صدر رجب طیب اردوغان حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔  

اطلاعات کے مطابق کمال قلیچ دار اوغلو نے ایک تقریر میں شام کے بارے میں ترک حکومت کی غلط پالیسیوں کی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”انقرہ کو دمشق کی قانونی حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر مذاکرات میں شریک ہونا چاہئے اور یہ کہ شام کے ساتھ جلد سے جلد سفارتی تعلقات قائم کرے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ شام کے بارے میں ترکی کی غلط پالیسیاں سرزمین ترکی پر تقریباً 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں کے قیام کا سبب بنی ہیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران ترکی کی بہت سی پارٹیاں اور سیاسی مبصرین بھی اردوغان حکومت سے شام کے ساتھ مہم جوئی کو ختم کرنے اور دمشق کی قانونی حکومت کے ساتھ جلد سے جلد مذاکرات کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کی پیٹریاٹک پارٹی کے سربراہ دوغوُ پیرِنچِک نے اردوغان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے شام کے ساتھ ترک حکومتوں کے تعلقات منقطع کئے جانے کو غلطی قرار دیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، ایچ ڈی پی، کے ایک لیڈر صلاح الدین دیمِرتاش نے بھی، جو اس وقت قید میں ہیں، شمالی شام میں ایک محفوظ علاقہ قائم کرنے کے ترک حکومت کے اقدامات کی طرف اشارہ کیا اور انقرہ حکام کو مخاطلب کرتے ہوئے کہا  کہ  ”شام کے بارے میں ترکی کی پالیسیاں پہلے دن سے ہی غلط  تھیں اور اب بھی غلط ہیں۔ اگر خارجہ پالیسی کو دوسروں کی شکست، یعنی کردوں اور بشار اسد کی شکست پر مبنی تیار کریں گے تو پہلے ہی دن آپ کی شکست ہے۔ شام کے بارے میں ترکی کی پالیسی دوسروں کی شکست کی کوشش کے بجائے ترکی کے لئے مفید اقدام پر مبنی ہونی چاہئے۔ اس کا منطقی ترین طریقہ بھی بشار اسد کی حکومت اور کردوں سمیت تمام شامی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے تمام دروازوں کو کھولے رکھنا ہے۔“

ترکی کے سیاسی تجزیہ کار بھی شمالی شام میں ایک خاص علاقے کے قیام کے انقرہ حکومت کے منصوبہ پر تنقید کرتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد کو غلط اقدام قرار دے ہے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کے مشہور تجزیہ کار فِکرت باشکایا نے بھی شمالی شام میں ایک محفوظ علاقہ کے قیام کے اردوغان حکومت کے فیصلہ کو ناقابال قبول اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”محفوظ علاقہ اس ملک کے اندر قائم کرنا چاہئے جہاں اپنی سیکورٹی کو مضبوط کرنا ہو لیکن ترک حکومت متنازعہ فیصلہ کے ساتھ اس طرح کا علاقہ ہمسایہ ملک  یعنی شام  کے اندر قائم کرنا چاہتی ہے۔“

شام کی قانونی حکومت کے سلسلہ میں انقرہ حکومت کی پالیسیوں پر ترک سیاسی لیڈروں اور تجزیہ کاروں کی وسیع تنقید اس حقیقت کی غماز ہے کہ انقرہ حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں حکومت مخالف پارٹیوں اور ترک معاشرہ کے درمیان شدید اختلافات اسی پس منظر میں پیدا ہوئے ہیں جبکہ شامی حکومت نے ترکی اور امریکہ کے محفوظ علاقہ کے قیام کے منصوبہ کو مسترد  اور شام سے امریکہ اور ترکی کے فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔ ترک اور امریکی حکومتیں بھی، جنہوں نے پچھلے سال سے ہی شمالی شام میں ایک محفوظ علاقہ کے قیام کے بارے میں مذاکرات کا آغاز کردیا تھا، رواں سال جون میں اس علاقہ کے قیام سے متعلق متعدد اختلافات کی وجہ سے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں۔ بہرحال، ایسا لگتا ہے کہ ان اختلافات نے دونوں ممالک کے فیصلوں کو متاثر کیا ہے اور دونوں کے لئے مشکلات کا سبب بھی بنیں گے۔

ٹیگس