Sep ۰۸, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۰ Asia/Tehran
  • امریکہ کی اقتصادی دہشت گردی

 امریکہ ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیوں میں اضافہ کرکے اپنے مفادات کے تحفظ اور خطرات کو ختم کرنے کے بہانے اپنی تسلط پسندی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کن مفادات اور کن خطرات کی بات کر رہا ہے؟

امریکہ کی وزارت خزانہ نے جمعہ کو دھمکی دی کہ جو بھی تیل ٹینکر آدریان دریا کو، جس پر امریکہ نے کچھ ہی دن پہلے پابندی لگائی ہے،  ایندھن فراہم کرے گا اس کو بابندیوں والی فہرست میں شامل کر لیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت خزانہ نے ابھی ایک ہفتہ پہلے ایرانی تیل ٹینکر آدریان دریا پر، جس پر 21 لاکھ بیرل خام تیل لدا ہوا ہے، پابندی لگا دی ہے اور اس تیل ٹینکر کو ضبط شدہ اثاثہ قرار دے دیا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ نے اس ایرانی تیل ٹینکر کے کپتان اکھلیش کمار پر بھی پابندی لگا دی ہے۔

اس تیل ٹینکر کو تقریباً دو ماہ پہلے جبل الطارق علاقہ سے گزرتے وقت برطانوی بحریہ کے اہلکاروں نے روک لیا تھا لیکن بالآخر جبل الطارق نے تقریباً دو ہفتے پہلے عدالتی فیصلہ کی بنیاد پر اس تیل ٹینکر کو چھوڑ دیا۔ اس واقعہ سے پہلے اس تیل ٹینکر کا نام گریس ایک تھا اور اب اس کا نام آدریان دریا ہے نیز اسلامی جمہوریۂ ایران کے پرچم کے ساتھ اپنے سفر پر گامزن ہے۔ لندن میں ایرانی سفیر حمید بعیدی نژاد نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ ”لندن میں ایرانی سفارت خانہ نے بین الاقوامی بحری تنظیم، آئی ایم او، اور اس کے ارکان کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ نے ایرانی تیل کے حامل بحری جہاز، اس کے کپتان اور عملہ کو دھمکی دے کر نیز اس جہاز کو خدمات فراہم کرنے والے ممالک کو بھی دھمکی دے کر بحری معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی بحری سیکورٹی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔

امریکہ نے صرف انہیں غیر قانونی اقدامات پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ برطانیہ کے اخبار روزنامہ ”فائینینشل ٹائمز“ نے چند دن پہلے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران کے امور میں امریکی حکومت کے نمائندے برایان ہک نے آدریان دریا کے ہندوستانی نژاد کپتان کو ایک ای میل بھیج کر اس سے کہا  ہے کہ وہ تیل ٹینکر کو اس ملک کی طرف لے جائے جو امریکہ کی طرف سے اس کو پکڑ لے۔ برایان ہک نے اس ایرانی تیل ٹینکر کے کپنان کو ایک غیر معمولی ای میل بھیج کر رشوت کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے پیسہ لے کر باقی زندگی عیش و آرام سے گزار سکتا ہے لیکن اگر اس نے یہ کام نہیں کیا تو پھر اس کی زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اس خبر کے رد عمل میں اپنے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ”امریکہ بحری قزاقی میں ناکامی کے بعد اب رشوت پر اتر آیا ہے۔ یا ایرانی تیل ہمیں دو یا لاکھوں ڈالر لےلو ورنہ پابندی کے لئے تیار رہو۔ یہ اس دعوت سے بہت ملتی جلتی ہے جو چند ہفتے پہلے وہاؤٹ ہاؤس سے مجھے ملی تھی۔امریکہ ایسے اقدامات کو روایت بنا رہا ہے۔“

امریکہ نے جامع ایٹمی معاہدہ سے نکلنے کے بعد کئی بار ایران کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے جبکہ وہ گزشتہ مذاکرات اور امریکہ کی سابقہ حکومت کے دستخط کی بنیاد پر عائد ہونے والی اپنی ذمہ داریوں کا قائل نہیں ہے۔ ٹرمپ حکومت کی اس پالیسی کا مطلب بین الاقوامی معاہدوں اور امن و سلامتی کے لئے ایک خطرناک بدعت برقرار کرنا ہے۔ امریکی پالیسیوں کو صرف تسلط پسندانہ اور سامراجی رویہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ اور سیکورٹی کے بہانے پابندیوں کے حربہ سے دوسروں کے خلاف اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کا ہدف قطعاً تسلط پسندی ہے اور امریکہ کے مطابق ہدف سے وسیلہ بنتا ہے۔

امریکی رویہ میں دو نکات ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

پہلا نکتہ، اس کی تسلط پسندانہ پالیسیاں ہیں جو ملت ایران کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔

دوسرا نکتہ، امریکی پالیسیوں کی ماہیت ہے جس نے پچھلے 50 سال سے زیادہ کے عرصے میں تابت کیا ہے کہ ایران پر تسلط حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی جارحیت، جرم اور کسی بھی غداری سے دریغ نہیں کرے گا۔ امریکی پالیسیوں کی ہی وجہ سے ایرانی عوام کے خلاف 8 سالہ جنگ مسلط کی گئی۔ یہ حقائق امریکہ کے بارے میں ایرانی عوام کے نظریہ کی کسوٹی ہیں البتہ امریکہ کی تسلط پسندی اور دھونس دھمکی صرف ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے سلسلہ میں امریکہ کا یہی رویہ ہے۔ امریکہ ہر چیز پر اپنا حق سمجھتا ہے اور سب پر اپنا حکم چلانا چاہتا ہے، ہر چیز کو جیسے خود چاہتا ہے ویسی ہی بنانا چاہتاہے۔ وہ طاقت و اقتدار بھی چاہتا ہے اور ثروت و دولت بھی۔ امریکہ دنیا کے لوگوں کے عقائد، تہذیب و ثقافت اور ان کی علم دانش پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

 

ٹیگس