Oct ۲۲, ۲۰۱۹ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • چین سیکورٹی کانفرنس کا مقصد، مشرقی سیکورٹی ڈائیلاگ کو تقویت پہنچانا ہے

چین کے دارالحکومت بیجنگ کے شہر شیانگ شین میں نویں سیکورٹی کانفرنس پیر کو چین کے صدر کا پیغام پڑھنے کے ساتھ شروع ہوگئی-

شیانگ شین سیکورٹی کانفرنس میں اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا کے ستر سے زیادہ ممالک کے نمائندے موجود ہیں۔ اس کانفرنس کا آغاز چین کے صدر شی جین پینگ کے پیغام سے ہوا۔ چینی صدر نے کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بیجنگ کا خیال ہے کہ پیشرفت و تعاون ، مذاکرات اور پائدار امن کا قیام، علاقے اور دنیا میں مشترکہ سیکورٹی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ چین کے صدر نے اپنے پیغام میں ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک سے اپیل کی کہ وہ پیچیدہ سیکورٹی خطرات کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی مرکزیت میں بین الاقوامی سسٹم کی حمایت کریں۔ اس کانفرنس میں ایران کے وفد کی سربراہی اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی آپریشنل کمانڈر مہدی ربانی کر رہے ہیں۔ شیانگ شین بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس کا مقصد ، علاقائی اور بین الاقوامی سیکورٹی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا ہے۔ شیانگ شین سیکورٹی کانفرنس تین دنوں تک جاری رہے گی۔  

نواں شیانگ شین سیکورٹی اجلاس، چین میں ایسی حالت میں انجام پا رہا ہے کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ دنیا کے مختلف علاقوں پر اپنے مدنظرسیکورٹی ماڈل مسلط کرنے کے درپے ہے- یہ سیکورٹی اجلاس، مشترکہ سیکورٹی تعاون کے بارے میں باہمی تبادلۂ خیال اور ایسے نئے افکار پیش کرنے کا ایک مناسب موقع ہے کہ جس میں پیش کئے جانے والے سیکورٹی ماڈل پر تمام ممالک کا اتفاق رائے ہو-

حالیہ برسوں کے دوران امریکہ نے دنیا کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی و سیاسی مہم جوئی کے منفی نتائج کے سبب، بعض مغربی ملکوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے ذریعے کوشش کی ہے کہ وہ چیز کہ جسے وہ تنہا اپنے قومی تحفظات کی بنیاد پر خطرہ سمجھتا ہے اسے بین الاقوامی مسئلے اور ڈائیلاگ میں تبدیل کردے اور سبھی ملکوں کو اس خطرے کا بھرپور مقابلہ کرنے پر مجبور کرے-

امریکہ یہ اقدام ایسے میں انجام دے رہا ہے کہ عالمی سطح پر اس ملک کی یکطرفہ پالیسیوں کو، کہ  جس کا مقصد صرف واشنگٹن کے سیکورٹی اہداف کو پورا کرنا ہے، وسیع پیمانے پر عالمی مخالفتوں کا سامنا ہے اور امریکی حکومت کو یکطرفہ مفادات پر مبنی سیکورٹی سے متعلق بات چیت کے لئے عالمی اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے-

ان حالات میں جبکہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک اپنے مدنظر سیکورٹی ماڈل کو پیش کرنے اور دہشت گردی کے خطرات کی ناقص تعریف کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کے درپے ہیں ایسے میں شیانگ شین سیکورٹی اجلاس ایک مناسب موقع ہے تاکہ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک اپنے مشترکہ مفادات اور خطرات کی بنیاد پر ، سیکورٹی تعاون کا ایک ایسا ماڈل پیش کریں کہ جس کے مطابق علاقے کے تمام ممالک کے تحفظات کو مدنظر قرار دیا جائےاور اجتماعی سلامتی کے نقطہ نظر کے ساتھ سلامتی کے مفادات کو بیان کیا جائے-

چین کے صدر نے اپنے پیغام میں جس بات کی جانب اشارہ کیا ہے اس کی بنیاد پر ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کے ملکوں کو چاہئے کہ سیکورٹی کے مشترکہ خطرات کو درک کرتے ہوئے، درپیش خطرات کا منظم طورپر مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی و عملی اتفاق رائے کی ضرورت کے دائرے میں اپنا تعاون انجام دیں- خاص طور پر یہ جو انہوں نے کہا کہ یہ علاقائی تعاون اقوام متحدہ کی مرکزیت میں انجام پائے، یہی مسئلہ مغربی سیکیورٹی ماڈل اور مشرقی سیکیورٹی ماڈل کے مابین فرق کا باعث ہے۔

امریکہ نے حالیہ برسوں کے دوران اقوام متحدہ کو کنارے لگاکر اور اس اہم بین الاقوامی ادارے کے کردار سے بے توجہی برتتے ہوئے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں کی تقسیم بندی کرکے عملی طور پر خودمختار و آزاد اور وائٹ ہاؤس کی یکطرفہ پالیسیوں کے مخالف ملکوں کے خلاف طاقت کے استعمال اور حتی مداخلت کے لئے حالات فراہم کئے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عالمی امن وسلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری اس ادارے کی سلامتی کونسل کے ذمے ہے لیکن امریکہ اس کی پوزیشن کو نظرانداز کرکے اس ادارے کو مختلف روشوں سے غیرجانبدارانہ فیصلے کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے-    

ٹیگس