Oct ۲۸, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۴ Asia/Tehran
  • ابوبکر البغدادی اور داعش کا وجود،  اور مغربی ایشیا کے علاقے میں آشوب و بدامنی میں فروغ

داعش کے سرغنہ ابوبکر البغدادی،آخرکار ہلاک ہوگیا اور اس کی جگہ اس دہشت گروہ کے نئے سرغنہ عبداللہ قرداش کا تعین کیا گیا ہے-

داعش اور ابوبکر البغدادی کے بارے میں، مختلف پہلوؤں منجملہ اس کو وجود میں لائے جانے اور خاص طور پر امریکہ کے کردار کے سلسلے میں بہت زیادہ مضامین لکھے جاچکے ہیں- لیکن ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ داعش اور البغدادی کا وجود ، مغربی ایشیا کے علاقے کے لئے کن نتائج کا حامل رہا ہے؟ 

 مغربی ایشیا کے علاقے میں البغدادی کو وجود میں لانے کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جن ملکوں کے بعض شہروں اور علاقوں پر داعش نے قبصہ کرلیا تھا ان میں انسانی المیہ رونما ہوا ہے-  ابوبکر البغدادی نے جون 2014 میں خود کو عراق کے شہر موصل میں داعش کا خلیفہ اعلان کیا اور اس بات کا دعوی کیا کہ وہ اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتا ہے- داعش اور البغدادی عراق میں چار سال سے کم عرصے تک عراق میں موجود تھے- لیکن اس ملک میں ان کے ہاتھوں ایسا انسانی المیہ رونما ہوا جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے- جون 2014 میں اسپائیکر فوجی چھاؤنی میں قتل عام ان ہی جرائم میں سے ایک ہے- اس وحشیانہ قتل عام میں سترہ سو نہتے افراد کا قتل عام کیا گیا تھا اور ان کو ایک اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا تھا- اس کے علاوہ داعش دہشت گرد گروہ عام شہریوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا- عراق میں داعش کے ہاتھوں عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو مغوی بنالینا اور ان کو کنیز کے طور پر فروخت کردینا نیز ملا عام میں عام شہریوں کو زندہ جلادینا اور ان کا سر قلم کردینا ، داعش کے جملہ غیر انسانی اقدامات میں شامل ہے-

داعش دہشت گرد گروہ کی بربریت اس بات کا باعث بنی کہ عراق کے شہریوں خاص طور پر ایزدیوں کی ایک بڑی تعداد نے داعش کے خوف سے پہاڑوں میں پناہ لے لی اور بہت سے شہری بھوک اور پیاس کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے- داعش نے البغدادی کی قیادت میں، عراق میں اپنے زیر انتظام علاقوں میں خاندانوں کا شیرازہ بکھیر دیا- اور ایسے جرائم انجام دیئے کہ عراقیوں کو طویل مدت تک اس کے بدترین اثرات کا سامنا رہے گا- اگرچہ داعش اور البغدادی کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن داعشی فکرکے حامل داعش کے باقیماندہ عناصرعراق کے بعض علاقوں میں بدستور موجود ہیں اور ان کے ہاتھوں حالیہ دنوں میں بدامنی پھیلانے کے واقعات کے بارے میں رپورٹیں بھی منظرعام پر آئی ہیں-

البغدادی اور داعش کے وجود میں آنے کا دوسرا نتیجہ یہ ظاہر ہوا ہے کہ ان ملکوں میں جہاں داعش موجود تھے وہاں معاشرتی نظام کا خاتمہ ہوگیا ہے- داعش دہشت گردوں نے خاص طور پر عراق اور شام میں سماجی ڈھانچوں منجملہ رہائشی مکانات ، اسکولوں، طبی مراکز، سڑکوں اور زرعی علاقوں کو بری طرح سے برباد کردیا ہے اور ان ملکوں میں زندگی کا سماجی بنیادی ڈھانچہ تباہ کردیا ہے- یہی جرائم اس بات کا باعث بنے ہیں کہ عراق اور شام جیسے ممالک ترقی کی دوڑ میں دسیوں سال پیچھے ہوگئے ہیں- بلاشبہ عراق میں سماجی خدمات کے ناپسندیدہ اور کمزور ہونے کی ایک وجہ، کہ جس کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اس ملک میں داعش کے چار سالہ جرائم ہیں-

اور تیسرا اور آخری نتیجہ مغربی ایشیا کے علاقے میں ان ملکوں کی مرکزی حکومت کا کمزور ہونا ہے کہ جہاں داعش داخل ہوئے- مغربی ایشیا کے پروفیسر اور محقق سید جواد صالحی کا ماننا ہے کہ داعش جن جرائم کا مرتکب ہوا ہے اس نے مرکزی حکومتوں کے کمزور ہونے کی زمین فراہم کی ہے-  داعش نے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں بعض علاقوں پر قبضہ کرکے اور انسانی وسماجی شعبے میں جن جرائم کا ارتکاب کیا ، اس کے باعث ان سے مقابلہ ، حکومتوں کی پہلی ترجیحات میں میں تبدیل ہوگیا- داعش دہشت گرد گروہ سے مقابلے نے مغربی ایشیا کےعلاقے کی حکومتوں خاص طور پر عراق اور شام کی حکومتوں کی بہت زیادہ طاقت سلب کرلی اور اس نے کسی حد تک اس دہشت گرد گروہ سے لڑنے اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے مواقع فراہم کئے-

اور آخر میں یہ نکتہ کہ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فاتحانہ انداز میں ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی خبر دی لیکن داعش نے البغدادی کی سرکردگی میں مغربی ایشیا کے علاقے کو بڑے فتنوں میں مبتلا کیا اور اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات میں کام انجام دیئے- اور البغدادی کا قتل بھی مغربی ایشیا کے لئے سنگ میل شمار نہیں ہوتا بلکہ داعش دہشت گرد گروہ کے دوبارہ زندہ ہونے کا نیا دور ہوگا-    

ٹیگس