Oct ۳۱, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۲ Asia/Tehran
  • ایران اور مزاحمتی گروہوں کے خلاف امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی نئی پابندیاں

ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی میں دن بہ دن شدت آنا، زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے دائرے میں ہے اور اسی سلسلے میں اس کی کوشش ہے کہ علاقے میں اپنے اتحادیوں کے ہمراہ، مزاحمتی گروہوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کرے-

امریکی وزارت خزانہ نے بدھ کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس نے بحرین ، کویت، عمان ، قطر ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر، ایران اور مزاحمتی گروہوں سے متعلق پچیس کمپنیوں، بینکوں اور افراد کا بائیکاٹ کیا ہے- اس بیان کی بنیاد پر دہشت گردی کی نام نہاد مالی اعانت کے مقابلے کے مرکز نے، کہ جس میں امریکہ اور مذکورہ چھ  عرب ممالک شامل ہیں، ایران اور مزاحمتی گروہوں سے متعلق پچیس کمپنیوں، بینکوں اور افراد کے خلاف پابندی عائد کردی ہے- اس پابندی میں حزب اللہ لبنان سے متعلق افراد اور ادارے بھی شامل ہیں - البتہ یہ پچیس کمپنیاں، بینک اور افراد کہ جن کا بائیکاٹ کیا گیا ہے، پہلے سے ہی امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں- امریکی وزارت خزانہ  کے بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن اور چھ عرب ملکوں کے توسط سے جو حالیہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں سے اکیس ایسی کمپنیاں، بینک اور افراد ہیں جو سپاہ پاسداران انقلاب سے وابستہ مزاحتمی اہلکاروں کی مالی اعانت کرتے تھے-   

ٹرمپ انتظامیہ نے دسمبر دوہزار سترہ سے، امریکہ کی قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی کی دستاویز میں پیش کی گئی ہدایات کے دائرے میں، علاقے میں ایران اور مزاحمتی محور کے خلاف اتحاد قائم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے- علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور مزاحمتی گروہوں پر دباؤ بڑھانے کے امریکہ کے متعدد اقدامات کے باوجود ، واشنگٹن کے اقدامات اور پالیسیوں کے عمل پر نظر ڈالنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو اپنے علاقائی اہداف کے حصول میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے- اس سلسلے میں جنوبی خلیج فارس کے ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب جیسے امریکہ کے اتحادی ملکوں کے مفادات اور ان کوسلامتی فراہم کرنے میں واشنگٹن کی ناکامی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ یمن کی مزاحمتی فورسیز نے اپنے حملوں کے ذریعے سعودی عرب کے دانت کھٹے کردیئے  اور اس ملک کے مشرق میں واقع بقیق و خریص تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملے کرکے سعودی عرب کاری پر ضرب لگائی ہے اور امریکہ، علاقے میں اپنے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کی تعیناتی کے باوجود ان حملوں کو روکنے اور پسپا کرنے میں ناکام رہا ہے- ٹرمپ انتظامیہ کی ایک اور ناکامی شام میں تھی کہ اس نے شمالی شام پر ترکی کے حملے سے قبل اپنے فوجیوں کو وہاں سے نکال لیا- ٹرمپ کے اس اقدام پر امریکی سیاستدانوں خاص طور پر امریکی کانگریس نے شدید تنقید کی- اس وقت پنٹاگون کی کوشش ہے کہ مشرقی شام میں تیل کے کنووں اور تیل کی تنصیبات کی حفاظت کے بہانے اپنی فوج اور فوجی سازوسامان روانہ کرنے کے ذریعے، کسی حد تک ٹرمپ کے فیصلے کی لاج رکھے- لیکن اس وقت یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ شام کی قانونی حکومت نے روس کے ساتھ مل کر عملی طور پر شام کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے- اس وقت ٹرمپ انتظامیہ اپنے علاقائی اتحادیوں کے ہمراہ اپنے زعم ناقص میں اس کوشش میں ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے نئی پابندیاں عائد کرکے کہ جو ایران اور مزاحمتی گروہوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے مقصد سے ہیں ، کسی حد تک توازن برقرار کرے- اس کے باوجود حقیقت امر یہ ہے کہ ایران کا علاقے میں اثرو رسوخ دن بہ دن بڑھتا جا رہاہے اور مزاحمتی گرہوں کی کامیابیوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے-  

واشنگٹن اس وقت ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے مالی ذرائع مختص کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے - امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ شینکر David Schenker نے بدھ کو کانگریس کے اجلاس میں کہا کہ دوہزار بیس کے مالی سال کے بجٹ میں، علاقے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ، چھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر بجٹ کا ایک حصہ ، ایران کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے سے مختص کیا گیا ہے- اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ اس نے  یمن، لبنان اور فلسطین کی ان مزاحمتی تحریکوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے جو غاصبانہ قبضے اور جارحیتوں کا مقابلہ کر رہی ہیں اور یہ حمایت وہ، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ کے باجود آئندہ بھی جاری رکھے گا- البتہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے خلاف پابندیاں سخت کرنے خاص طور پر تیل کی برآمدات کے خلاف پابندیاں جاری رکھنے پر زور دے رہی ہے اور اس بات کی مدعی ہے کہ وہ اپنی کوششیں ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانے کے لئے انجام دے رہی ہے- امریکی نائب وزیر خارجہ کورٹ ڈینلی Kurt Donnelly نے ایران کے تیل کے خریداروں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن ان پر نظر رکھے ہوئےہے- اس کے باوجود ایران کے تیل کی برآمدات کے جاری رہنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کو اپنی اس خواہش کی تکمیل میں ناکامی کا سامنا ہے - اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا کہا ہے کہ وہ امریکہ کے استکباری مطالبات کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہیں کرے گا-      

ٹیگس