Nov ۱۳, ۲۰۱۹ ۱۶:۱۱ Asia/Tehran
  •  قاتل اور جارح صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل

صہیونی حکومت نے کل بارہ نومبر کی صبح کو غزہ پر حملہ کرکے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے ایک کمانڈر بہا ابوالعطا کو شہید کردیا- در ایں اثنا غزہ پر صیہونی حکومت کے گذشتہ روز کے حملوں میں دس اور فلسطینی شہید اور بہت سے زخمی ہوگئے-

شہید بہا ابوالعطا کےقتل کے بارے میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیا ہے - اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتیاہو نے کہا ہے کہ دس روز قبل اسرائیلی کابینہ کے تمام افراد نے ابوالعطا کے قتل پر اتفاق کیا تھا- اس بنا پر یہ دہشت گردانہ کاروائی ریاستی دہشت گردی ہے کہ جو صیہونی حکومت کے توسط سے انجام پائی ہے-

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکام ، شہید ابوالعطا کو قتل کرنے کے بعد یہ ظاہر کرنے میں کوشاں ہیں کہ ابوالعطا کو ایک مسلح جھڑپ میں، فوجی کاروائی کے دوران قتل کیا گیا ہے- اسی بنا پر اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ ابوالعطا کے قتل کا فیصلہ ، اسرائیلی علاقوں پر میزائیلی حملوں میں ان کے ملوث ہونے کے باعث کیا گیا ہے- یہ دعوی ایسے میں کیا جا رہا ہے کہ عملی طور پر حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج اور فلسطینی گروہوں کے دوران کوئی جھڑپ انجام نہیں پائی ہے- درحقیقت یہ دعوی، عالمی اداروں میں فلسطیینوں کے رجوع کرنے کی روک تھام کے مقصد سے پیش کیا جا رہا ہے-

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ شہید ابوالعطا کا قتل ایسے وقت میں انجام پایا ہے کہ صیہونی حکومت  نئی کابینہ کی تشکیل میں بند گلی میں پہنچ چکی ہے اور دوسری جانب، اس غاصب حکومت کے وزیر جنگ کے عہدے پر براجمان ہوئے نفتالی بنٹ کو صرف دو روز گذرے ہیں- اسی سلسلے میں، اسرائیلی پارلیمنٹ میں، اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کے مشترکہ فریکشن کے لیڈر نے کہا ہے کہ نتنیاہو ، اسرائیلی اقتدارمیں خود کو باقی رکھنے میں کوشاں ہیں-

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت، خاص طور پر گذشتہ ایک سال میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مزاحمتی گروہوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کاروائی کے ذریعے وہ اپنے مدنظر نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی- اسی بنا پر اپنی ناکامیوں کی تلافی کے لئے فلسطینی حکام اور کمانڈروں کے قتل پر اتر آئی ہے- اسی سلسلے میں اخبار ھاآرٹص نے اگست 2018 میں ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسرائیل غزہ کے خلاف وسیع فوجی کاروائی انجام دینے کے بجائے ایک بار پھر فلسطینی حکام کے قتل کی پالیسی اپنانے کا قصد کئے ہوئے ہے- اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج اوراسرائیل کی خفیہ تنظیم شاباک کے توسط سے علیحدہ علیحدہ طور پر اس اعلان کے بعد کہ مزاحمتی محور کے عہدیداروں کے قتل کی پالیسی کو، غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کاروائی پر ترجیح دی جائے گی، اس پالیسی پرعملدرآمد کے حالات فراہم ہوگئے ہیں-

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ابوالعطا کے قتل کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے- فلسطینی بٹالینوں کے ایک کمانڈر ابومجاہد نے کہا ہے کہ ابوالعطا کے قتل کی واردات اور تحریک جہاد اسلامی کے ایک اور لیڈر اکرم العجوری کو نشانہ بنایا جانا، مزاحمت کے خلاف جنگ کی نئی کوشش کا آغاز ہے- فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی کے میڈیا دفتر کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس تحریک کی فوجی شاخ کے ایک کمانڈر شہید ابوالعطا کا قتل، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی غاصب حکومت کے اعلان جنگ کے مترادف ہے-

اسی سلسلے میں مزاحمتی گروہوں نے ابوالعطا کے قتل کے بعد تقریبا دو سو میزائل مقبوضہ علاقوں پر فائر کئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں پچاس سے زائد صیہونی زخمی ہوئے ہیں- در ایں اثنا مقبوضہ علاقوں میں شدید خوف و ہراس کا ماحول پایا جاتا ہے اور اسرائیل نے 2014 کے بعد سے پہلی بار اپنے تمام اسکولوں اور پبلک مقامات میں چھٹی کردی ہے - اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ میں کہا ہے کہ دس لاکھ طلبا اور اسی ہزار اساتذہ نے مزاحمتی فورسیز کے میزائلی حملوں کے خوف سے اپنے گھروں میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ اسکول اور یونیورسٹی جانے سے خوف کھا رہے ہیں-

اور آخری نکتہ یہ ہے کہ شہید ابوالعطا کے قتل پر فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کا ردعمل اور مقبوضہ علاقوں پر متعدد میزائلوں کا داغا جانا، فلسطینیوں کا قانونی اور جائز حق ہے کہ جس کا ذکر اقوام متحدہ کے منشور کی شق نمبر اکیاون میں کیا گیا ہے- اس بنا پر آئندہ دنوں میں فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان وسیع جھڑپیں انجام پائیں گی، ایسی جھڑپیں اور لڑائیاں کہ جو ممکن ہے اس حکومت کی نئی کابینہ کی تشکیل پر اثر انداز ہو-     

ٹیگس