Nov ۲۵, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • امریکی مداخلت کے خلاف لبنانیوں کا مظاہرہ

لبنانی عوام نے بیروت میں امریکی سفارتخانے کے سامنے اور دیگر شہروں کے مین اسکوائروں پر اکٹھا ہوکر امریکی پرچم نذر آتش کیا۔

لبنان میں حکومت مخالف مظاہرے سترہ اکتوبر سے شروع ہوئے تھے جو تیرھویں روز، وزیر اعظم سعد الحریری کے استعفے پر منتج ہوئے- یہ مظاہرے داخلی مسائل جیسے معاشی صورتحال اور بدعنوانی کے خلاف شروع ہوئے تھے لیکن غیر ملکی عناصر خاص طور پر امریکی ایجنٹوں نے لبنان کے داخلی امور میں مداخلت کرکے مظاہروں کا رخ اپنے مدنظر اہداف کی سمت موڑنے کی کوشش کی- 

سعد الحریری کو اپنے عہدے سے استعفی دیئے ہوئے پچیس روز گذر رہے ہیں ابھی تک لبنان کے سیاسی گروہ،  نئے وزیر اعظم کے تعین کے بارے میں کسی اتفاق رائے تک نہیں پہنچ سکے ہیں- وزارت عظمی کے عہدے کے لئے کسی لائق فرد کے انتخاب میں لبنانی گروہوں کی ناتوانی کی ایک وجہ، غیرملکی بازیگروں خاص طور پر امریکہ کی اس سلسلے میں مداخلت ہے- امریکی، لبنان میں ایک ایسی مغرب پسند حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جو ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو-

درحقیقت امریکہ کہ جسے گذشتہ برسوں کے دوران علاقے میں لبنان کی مزاحمتی فورس کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور پے درپے شکستوں کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے، اس کوشش میں ہے کہ لبنان کے سیاسی میدان میں اپنی ناکامیوں کی تلافی کرے- اسی سلسلے میں امریکی کانگریس کے 240 اراکین نے کچھ عرصہ قبل ایک پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش سے اپیل کی تھی کہ وہ بین الاقوامی قیادت میں حزب اللہ کے اثرو رسوخ کو کم کریں-

لبنان میں امریکہ کے سابق سفیر جفری فلٹمین نے بھی گذشتہ ہفتے کانگریس میں اپنی تقریر کے دوران لبنان کے بارے میں مداخلت پسندانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملک میں حالیہ دنوں میں ہونے والے مظاہرے، حزب اللہ کا چہرہ مخدوش ہونے کا باعث بنے ہیں- یہ اقدامات اور اظہار خیالات اس امر کے غماز ہیں کہ امریکی حکام، حزب اللہ لبنان کے خلاف جدوجہد کے نئے دور کا آغاز، اس ملک میں نئی حکومت کی تشکیل میں مداخلت کے ذریعےانجام دینے کے درپے ہیں-

حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے رائٹرز نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا امریکی انتظامیہ ، اصل میں لبنان میں حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ بنی ہوئی  ہے اور یہ کام وہ خفیہ طور پر کر رہی ہے- وہ اپنی شرطیں مسلط کرنا چاہتی ہے اور اس بات میں کوشاں ہے کہ نتائج اس کے حق میں ہوں- اور یہی وہ مسئلہ ہے جو بحران کے حل میں تاخیر کا باعث بنا ہے-امریکہ، پہلے ہی حزب اللہ لبنان کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرچکا ہے اور اس کے خلاف پابندیاں بھی عائد کردی ہیں- اس وقت واشنگٹن اس کوشش میں ہے کہ ایک ایسی حکومت لبنان میں برسر اقتدار آئے جس میں حزب اللہ کا کردار کم سے کم ہو اور اس کی کوئی خاص پوزیشن نہ ہو- درحقیقت امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ ایسی حکومت  لبنان میں تشکیل پائے کہ جو مغرب کی ہمنوا ہو، اس کے ساتھ مل کر کام کرے اور امریکی مفادات کی براہ راست محافظ اور نگراں ہو- نئی کابینہ کی تشکیل میں اسرائیل کے سیاسی گروہوں کی شکست اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں غیرمعمولی سیاسی بحران کا وجود بھی ، حزب اللہ کے خلاف امریکی کوششوں میں اضافے کی وجہ ہے-

لبنان کی نئی کابینہ کے سلسلے میں اس امریکی اسٹریٹیجی پر عوام سراپا احتجاج ہیں اور اس ملک کے مختلف علاقوں کے عوام منجملہ بیروت اور طرابلس کے عوام نے امریکہ مخالف مظاہرے کرکے،" امریکہ مردہ باد" ، "سامراج کو تسلیم نہیں کریں گے" ، اور " بیروت آزاد و خود مختار ہے"  جیسے نعرے لگائے- اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کے سابق سفیر نے ایسی حالت میں لبنان میں حزب اللہ کا چہرہ مخدوش ہونے کا بے بنیاد دعوی کیا ہے کہ مزاحمتی اتحاد نے مئی 2018 کے انتخابات میں 120 نشستوں میں سے 68 نشستیں حاصل کرکے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی تھی، اور اس وقت لبنانی پارلیمنٹ میں اس کو برتری حاصل ہے-    

     

ٹیگس