Nov ۲۶, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۹ Asia/Tehran
  • منامہ مذاکرات اور آل خلیفہ کی وابستگی کا ثبوت

سالانہ منامہ مذاکرات تین دنوں تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوگئے لیکن اس کے ضمنی مسائل کے بارے میں گفتگو جاری ہے-

بحرین  گذشتہ برسوں کے دوران باضابطہ طور پر، ایک ماتحت حکومت میں تبدیل ہوگئی ہے- آل خلیفہ کو اپنا اقتدار باقی رکھنے کے لئے سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت کی ضرورت ہے- اسی بنا پربحرین سرکاری طور پر اور آشکارا طریقے سے، امریکی پالیسیوں کو نافذ کرنے والا اور سعودی عرب کی پالیسیوں کا تابع ملک بن گیا ہے- 

بحرین نے گذشتہ سال موسم گرما میں متعدد بار ایسے اجلاسوں کی میزبانی کی ہے کہ جو منامہ میں امریکی درخواست پر منعقد کئے گئے ہیں- بحرین ہی وہ عرب ملک تھا کہ جس نے امریکی منصوبے سنچری ڈیل پرعملدرآمد کے لئے، ایک اجلاس کی میزبانی کی تھی-

اگرچہ رائے عامہ کے شدید دباؤ اور اس اجلاس کے انعقاد سے پہلے ہی اس کی ناکامی کی خبریں منظر عام پر آجانے کے سبب، صیہونی حکومت نے منامہ اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن بحرین کے وزیر خارجہ نے صراحتا صیہونی حکومت کے ساتھ۔ عرب ملکوں کے تعلقات کی بحالی کا دفاع کیا-

بحرین نے اسی طرح گذشتہ سال موسم گرما میں بحری سلامتی کے عنوان سے ایک اجلاس کی میزبانی کی تھی کہ جو نام نہاد بحری اتحاد کی تشکیل کا پیش خیمہ تھا - یہ اجلاس بھی واشنگٹن کی درخواست پر منامہ میں منعقد ہوا تھا-

بحرین، مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی پالیسیوں کو نافذ کرنے والا ملک ہونے کے ساتھ ہی، آل سعود کی علاقائی پالیسیوں کا بھی تابع بن گیا ہے- سعودی عرب نے مارچ 2011 میں آل خلیفہ کی حمایت میں، ملکی سطح پر حکومت مخالفین کو سرکوب کرنے کے لئے بحرین پر لشکر کشی کردی اور اس حکومت کی مالی حمایت بھی کر رہا ہے- اس کے بالمقابل، آل خلیفہ حکومت بھی علاقے میں سعودی عرب سے ہم آہنگ پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور سعودی پالیسیوں کی تابع ہے-

آل خلیفہ حکومت ، خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ قطر کی کشیدگی میں ریاض کے ساتھ ہے-اب تک بحرینی شخصیتوں اور گروہوں نے بارہا آل سعود کے ساتھ آل خلیفہ کے تعلقات پر تنقید کرتے ہوئے، اسے آل خلیفہ کے ماتحت ہونے کی علامت قرار دیا ہے- 

بحرین کی جمعیت الوفاق نے منامہ مذاکرات کو آل خلیفہ حکومت کے پروپیگنڈے کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ جمعیت الوفاق بحرین نے اپنے بیان میں کہا کہ آل خلیفہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اس اجلاس کے ذریعے  یہ ڈھونگ رچانا چاہتی ہے کہ اس کے لئے مذاکرات اور علاقائی و عالمی سیکورٹی اہم ہے ۔ جمعیت الوفاق نے تاکید کی کہ بحرین کی موجودہ حکومت کی پالیسی میں گفتگو، رابطہ یا مفاہمت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور آل خلیفہ حکومت، اپنے عوام کی سرکوبی اور طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں سمجھتی۔ جمعیت الوفاق نے اپنے بیان میں منامہ اجلاس میں شریک ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں جان لینا چاہئے کہ بحرین کے عوام کو کسی طرح کی سیکورٹی و تحفظ حاصل نہیں ہے۔

منامہ مذاکرات کے زیرعنوان تین روزہ پندرہویں سیکورٹی کانفرنس جمعے کی رات بحرین کے دارالحکومت منامہ میں شروع ہوئی تھی جو اتوار کو ختم ہوگئی۔ اس علاقائی سیکورٹی کانفرنس کے شرکا نے، بحری سیکورٹی، مشرق وسطی میں جنگ و تصادم، دفاعی سفارتکاری، علاقائی استحکام، امریکی پالیسی، مشرق وسطی میں اتحادیوں کے تعلقات اور علاقائی رقابت اور تعاون کا جائزہ لیا- 

لیبیا کی قومی وفاقی حکومت کے وزیر اعظم فائزالسراج نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی - لیبیا کی اس حکومت کو اقوام متحدہ سرکاری طور پر تسلیم کرتی ہے تاہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر اس حکومت کو سرکاری طور پر قبول نہیں کرتے-

بحرین کی نیوز ایجنسی ( بنا) نے اتوار کے روز ایک خبر میں، اس ملک کے بادشاہ کے ساتھ  فائز السراج کی ملاقات کی خبر دی لیکن اس نے خبر کو فوری طور پر ڈیلیٹ کردیا- بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے بھی پیر کے روز فائزالسراج کے دورۂ منامہ پر ردعمل میں اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا کہ السراج بحرین میں ایک مخصوص دورے پر ہیں اور اس کا سیاسی پروگرام سے کوئی ربط نہیں ہے-

بحرین کے وزیر خارجہ نے یہ دعوی ایسے میں کیا ہے کہ لیبیا کی قومی وفاق حکومت نے اپنے فیس بک پیج پر شاہ بحرین کے ساتھ فائز السراج کی تصویر شائع کرنے کے ساتھ ہی لکھا ہے کہ شاہ بحرین نے السراج کی قدردانی کرتے ہوئے، لیبیا میں امن و استحکام کی برقراری کے لئے السراج کی کوششوں کی حمایت کی ہے-

لیبیا کی قومی وفاقی حکومت کے سربراہ کی ، بحرین کے بادشاہ سے ملاقات کی خبر ڈیلیٹ کرنے اور پھر بحرین کے وزیر خارجہ کی جانب سے السراج کے دورے کی اہمیت کو کم کرنے کی وجہ، سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی ہے کیوں کہ یہ ممالک لیبیا کی نیشنل آرمی کے کمانڈر خلیفہ حفتر کی ، فائز السراج کے مقابلے میں حمایت کرتے ہیں اور یہ ممالک لیبیا میں بھی ، مصر کی طرح عبدالفتاح السیسی جیسی فوجی حکومت تشکیل دینے کے درپے ہیں- مرآۃ البحرین ویب سائٹ نے بھی ایک رپورٹ میں لکھا ہےکہ بحرین کے بادشاہ کے ساتھ السراج کی ملاقات کی خبر شائع ہونے کے بعد ، اس ملاقات کے تعلق سے ریاض اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی کی خبریں بھی نشر ہوئی ہیں- 

اس صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ اپنی خارجہ پالیسی میں بالکل بھی آزاد و خود مختار نہیں ہے اور وہ اس حد تک مجبور ہے کہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ کے ساتھ ملاقات کو، کہ جسے اقوام متحدہ سرکاری طور پر تسلیم کرتی ہے، کی تردید کردے- 

ٹیگس