Nov ۲۷, ۲۰۱۹ ۱۷:۳۴ Asia/Tehran
  • امریکہ اور اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کا غم و غصہ

فلسطینی عوام نے کل 26 نومبر کو "یوم غضب" سے موسوم مظاہروں کا انعقاد کرکے صیہونی حکومت کے لئے امریکی حمایت کی مذمت کی، اور امریکہ اور اسرائیل کے پرچم کو نذر آتش کیا- اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی عوام پر حملے کرکے کم از کم 77 افراد کو زخمی کردیا-

امریکہ سے فلسطیینیوں کے وسیع پیمانے پر نفرت اور غم وغصےکی متعدد وجوہات ہیں- امریکہ کی موجودہ حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں، جنوری 2017 سے اب تک اسرائیل کی حمایت میں سنچری ڈیل منصوبے کے دائرے میں ایسے اقدامات اور پالیسیاں اپنائی ہیں کہ جو فلسطینیوں کے خلاف اس غاصب حکومت کے تشدد میں اضافے کا اصلی عامل شمار ہوتی ہیں-

ٹرمپ نے چھ دسمبر2017 کو ایک غیر قانونی فیصلے میں سرکاری طور پر بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے نئے دارالحکومت کے طور پر متعارف کرایا اور اعلان کیا کہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جائے گا- یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس پر مئی 2018 میں عملدرآمد ہوا - اس کے علاوہ ٹرمپ نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) آنروا کی مالی امداد مکمل طور پر ختم کر دی-

درایں اثنا امریکہ، فلسطینیوں کے خلاف کچھ اور بھی جارحانہ فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے- ان فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کہ جو سنچری ڈیل کے دائرے میں ہے، فلسطینیوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنا ہے- اس فیصلے کے مطابق امریکی حکومت کا خیال ہے کہ فلسطینی گروہوں کو چاہئے کہ وہ مکمل طور پر غیر مسلح ہوجائیں اور صرف فلسیطینی پولیس کے پاس  ہلکے ہتھیار ہوں-

ٹرمپ انتظامیہ کے ان ہی غیر قانونی فیصلوں اور اقدام ات کے خلاف،  فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر مشارکت سے تیس مارچ 2018 سے وطن واپسی مارچ کا آغاز ہوا ہے اور غزہ کے باشندے ہر جمعے کو ان مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے وطن واپسی کے حق پر تاکید کرتے ہیں- وطن واپسی مارچ، کہ جو صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نئی تحریک انتفاضہ کی لہر کے مترادف اور فلسطین کے تعلق سے امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہے، صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے لئے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنا ہے- 

ان مظاہروں میں اب تک تین سو تیس سے زائد فلسطینی شہید اور تقریبا اٹھارہ ہزار زخمی ہوچکے ہیں - اس کے ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے 18 نومبر 2018 کو اپنے تازہ ترین ایک غیر قانونی فیصلے میں اعلان کیا ہے کہ فلسطین کی مقبوضہ اراضی پر صیہونی کالونیوں کی تعمیر غیر قانونی نہیں بلکہ مکمل طور پر قانونی اور جائز ہے-

یہ ایسے میں ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دسمبر دوہزار سولہ میں قرار داد دو ہزار تین سو چونتیس پاس کر کے فلسطینی علاقوں میں نئی صیہونی بستیوں کی تعمیر فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اسرائیل کی ناجائز حکومت امریکہ کی حمایت سے اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔

امریکی حکومت کے اس فیصلے پر فلسطینیوں نے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا ہے- تحریک فتح کے نائب سربراہ محمود العالول نے اس سلسلے میں کہا کہ امریکی حکومت، ڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب اسرائیل کی کابنیہ کی قیادت میں ایک گینگ کی مانند ، ملت فلسطین کے خلاف بڑے جرائم کی مرتکب ہوئی ہے-

واشنگٹن کے خلاف فلسطینیوں کے یوم غضب سے موسوم مظاہروں کے انعقاد کی وجہ بھی، امریکہ کی جانب سے یہودی کالونیوں کی تعمیر کی سرکاری طور پر حمایت کیا جانا ہے- فلسطینی مظاہرین نے صیہونی حکومت کی حمایت میں امریکہ کے مذموم عزائم منجملہ سنچری ڈیل اور مقبوضہ فلسطین میں یہودی کالونیوں کی تعمیر روکے جانے کی حمایت کے خلاف نعرے لگائے-

یوم غضب کے مظاہروں میں فلسطینی عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کی ایک اور وجہ، اسرائیلی جیل میں فلسطینی قیدی "سامی ابودیاک" کی شہادت بھی تھی- سامی ابودیاک منگل کی صبح کو، کینسر کی بیماری اور اس کے علاج معالجے کی صیہونی حکومت کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باعث  شہادت واقع ہوگئی-

آخری نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے لئے امریکہ کے حمایتی اقدامات اور پالیسیوں نے فلسطینیوں کے درمیان قومی و سیاسی اتفاق رائے کو مستحکم کیا ہے- یہ قومی اتفاق رائے اور امریکہ اور صیہونی حکومت کے حق میں فلسطینی عوام کے غیض وغضب میں شدت، ممکن ہے واشنگٹن کے رویوں کی ناکامی کا باعث بن جائے-

ٹیگس