Nov ۲۹, ۲۰۱۹ ۲۱:۲۹ Asia/Tehran
  • ٹرمپ کا غیر اعلانیہ دورۂ افغانستان

امریکہ نے 2001 میں نائن الیون کے حملوں کے بہانے، افغانستان پر حملہ کرکے اس ملک پر قبضہ جما لیا- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکال لیں گے- اس کے باوجود وہ اپنے اس وعدے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی موجود ہے-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات 28 نومبر کو ایک غیر اعلانیہ  دورے پر افغانستان پہنچے- ٹرمپ کا یہ پہلا دورۂ افغانستان ہے-امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فضائی اڈے بگرام ایئر بیس کا دورہ کیا اورامریکی فوجیوں سے ملاقات کی۔ دورے کے دوران امریکی صدر نے افغانستان کے صدر اشرف غنی  کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ 

امریکی صدر نے دہشت گرد امریکی فوجیوں کے ساتھ ملاقات میں ایک مختصر سی تقریر میں کہا کہ  طالبان کےساتھ امن مذاکرات جاری ہیں اور معاہدے کے لیے بات چیت کررہے ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ طالبان بھی جنگ بندی معاہدہ چاہتے ہیں اور اب وہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسئلہ اسی طرح حل ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے کہا طالبان سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سمجھوتہ حقیقی ہوگا یا نہیں- لیکن چاہتے ہیں کہ معاہدہ کریں طالبان گروہ اس وقت ماضی کے برخلاف جنگ بندی چاہتا ہے، ہم بھی چاہتے تھے کہ جنگ بندی ہو لیکن وہ کہتے تھے کہ ہم جنگ بندی نہیں چاہتے تاہم اب وہ بھی جنگ بندی کے خواہاں ہیں مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا-

امریکی صدر نے اس دورے کے دوران بگرام ایئر بیس میں صدر افغانستان اشرف غنی سے بھی ملاقات کی - انہوں نے اس ملاقات میں ایک بار پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کئے جانے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا- ٹرمپ کا دعوی تھا کہ طالبان شدت کے ساتھ معاہدے کے خواہاں ہیں ، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ڈیل ہونے تک یا مکمل کامیابی ہونے تک امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔  

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کہ جو تقریبا نو مہینے تک جاری رہے، سات ستمبر 2019 کو اچانک ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کابل میں ایک حملے کے بعد، کہ جس میں ایک امریکی فوجی ہلاک ہوگیا تھا، یہ مذاکرات منسوخ کردیئے گئے تھے- اس کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن کا عمل مردہ ہوگیا ہے- اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوجاتے تو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا نظام الاوقات معین ہوگیا ہوتا- اس کے باوجود گذشتہ ہفتوں کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان ان مذاکرات کے دوبارہ شروع کئے جانے کے بارے میں باتیں منظر عام پر آئی ہیں- ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس پر اپنی تقریر میں کہا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرکے آٹھ ہزار چھ سو کرنا چاہتے ہیں- واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں چودہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں- 

اس سے پہلے بھی افغانستان کا دورہ کرنے والے امریکہ کے سینئر حکام  اپنے بیانات میں افغانستان میں دہشت گرد امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رکھنے کی وجہ، اس ملک کا جنگ زدہ ہونا بتاتے رہے ہیں- امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر Mark Asper نے رواں سال بیس اکتوبر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو متاثر کئے بغیر، امریکہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرکے آٹھ ہزار چھ سو تک کرسکتا ہے- اس کے ساتھ ہی ایسپر نے کہا کہ ان فوجیوں کا انخلا طالبان کے ساتھ معاہدے کی صورت میں انجام پائے گا اور انخلا کا مسئلہ طالبان کے ساتھ معاہدے کا ایک حصہ ہوگا- 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان نے ہمیشہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا پر زور دیا ہے- طالبان کے ساتھ ممکنہ معاہدے کے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے لئے ایسپر کی تاکید کے باوجود، اس تعداد میں کمی،  افغانستان سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا نہیں کہلائے گا- خیال رہے کہ ٹرمپ نے رواں سال اگست کے اواخر مین اعلان کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ طے پاجانے کی صورت میں  امریکہ، افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلا لے گا- 

افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں ٹرمپ کے متضاد مواقف اور پھر اپنے دہشت گرد فوجیوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کے اس کے حالیہ موقف کے پیش نظر، پہلے مرحلے میں امریکہ کے صحیح موقف کا اندازہ نہیں ہوپا رہا ہے اور ساتھ ہی اس امر کی بھی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ امریکہ کے اندر ، امریکی فوجیوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کے بارے میں ٹرمپ اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے- اس وقت دہشت گرد امریکی فوجی، بدستور افغانستان میں موجود ہیں اور یہ مسئلہ وائٹ ہاؤس کے فیصلوں پر امریکہ کے حکومتی ڈھانچے کے غلبہ پانے کی علامت ہے اور اس طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے موجودگی کی مدت بھی نامعلوم ہے- اگرچہ ٹرمپ مجبور ہیں کہ امریکہ میں  نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لئے غیر ملکی سطح پر کچھ کامیابیاں حاصل کریں اور اپنی امیج کو اچھی بنائیں اسی بنا پر مسلمہ طور پر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا بھی ان ہی مسائل میں سے ایک ہوگا-  

ٹیگس