Nov ۳۰, ۲۰۱۹ ۱۷:۲۸ Asia/Tehran
  • ایران کے ایٹمی معاہدے کی شقوں کو دائمی بنانے پر روس کی مخالفت

امریکہ کے ساتھ ساتھ مغربی ملکوں کی جانب سے بھی ایٹمی معاہدے کی شقوں کو دائمی اور ہمیشگی بنانے کی کوششوں کے پیش نظر، روس نے اس مطالبے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے خلاف ایٹمی معاہدے کی پابندیوں کو دائمی بنانا، ممکن نہیں ہے-

بین الاقوامی اداروں میں روس کے نمائندے میخائیل اولیانوف نے ایران کے لئے ایٹمی معاہدے کی زوال پذیر شقوں کو دائمی بنائے جانے کے بارے میں کہا کہ بین الاقوامی قانون کے نقطۂ نظر سے ایٹمی معاہدے میں ذکر شدہ زوال پذیر شقیں، این پی ٹی کے ذیل میں اپنے بعض قانونی حقوق کو عارضی طور پر محدود کرنے کے لئے، ایران کے رضاکارانہ فیصلے کا حکم رکھتی ہیں-

ایٹمی معاہدے میں زوال پذیر شقوں سے مراد وہ شقیں ہیں جس کے ذیل میں، ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے لئے ذکر کی گئی پابندیاں، ایک معینہ مدت کے بعد ختم ہوجائیں گی- لیکن امریکہ اور ایٹمی معاہدے کے بعض دیگر ناقدین، آئندہ برسوں میں بعض پابندیوں کے ختم ہونے کو ایٹمی معاہدے کا عیب بتا رہے ہیں اور وہ ان پابندیوں کو دائمی کرنے کے خواہاں ہیں-

ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے ایٹمی معاہدے میں ذکر شدہ شقوں کی موجودگی کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کی اصل، یعنی ایران کا ایٹمی ہتھیاروں کا نہ بنانے کا وعدہ ایک دائمی امر ہے اور ایران نے وعدہ دیا ہے کہ وہ اس جانب قدم نہیں بڑھائے گا اور ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا - انہوں نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف عائد کردہ ، دس سالہ ، پندرہ سالہ اور بعض بیس سالہ اور پچیس سالہ پابندیوں کی وجہ، اعتماد کی بحالی ہے اور آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی بھی ملک سے یہ توقع رکھیں کہ وہ تا ابد اعتماد ہی بحال کرتا رہے-

انہوں نے یورپی فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں کی تکمیل کو، ایٹمی معاہدے کو بچانے کا واحد راستہ قرار دیا ہے۔ ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدے کو بچانے کی امیدیں ابھی پوری طرح معدوم نہیں ہوئیں تاہم اس کے لیے یورپی فریقوں کو اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدہ اب آخری منزل میں پہنچ چکا ہے لہذا یورپ کو اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی تاکہ اس معاہدے کو بچایا جاسکے۔ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار نے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے ایران نے جو سبق حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس معاہدے پر یکطرفہ عملدرآمد کا نتیجہ ایران کے خلاف پابندیوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور دوسرے  یہ ہے کہ تعاون کے رجحان سے زیادہ مزاحمت و استقامت موثر واقع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایٹمی معاہدے کے حوالے سے  یہ صورتحال جوں کی توں باقی رہی تو ایران بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران امریکہ کے  ساتھ اس کے من پسند معاہدے کے بارے میں مذاکرات کے لیے تیار ہے؟  سید عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران ایٹمی معاہدے اور میزائل پروگرام پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا، کیونکہ میزائل پروگرام کا ہماری سلامتی سے براہ راست تعلق ہے۔

واضح رہے کہ آٹھ مئی 2018 کو امریکا کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران نے یورپی وعدوں کی تکمیل کا، ایک سال تک انتظار کیا اور پھر معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق ، اس معاہدے پر عمل درآمد میں کمی کا مرحلے وار آغاز کردیا۔ایران اب تک اس سلسلے میں چار مراحل انجام دے چکا ہے۔ دوسری جانب وزارت خارجہ ایران کے ترجمان سید عباس موسوی نے فرانسیسی وزیر خارجہ کے غیر تعمیری بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اس بیان سے جامع ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ جامع ایٹمی معاہدہ یورپی ملکوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایران کو امریکہ کے غیر قانونی اقدامات کے مقابلے میں اپنے جائز مفادات کے حصول سے باز رکھنے کے لیے اس معاہدے کے مصالحتی مکینیزم کو بطور سند استعمال کریں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے مصالحتی مکینیزم کا مقصد صرف ایٹمی معاہدے میں درج شدہ اختلافات کو حل اور فریقین کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام تر اقدامات ایٹمی معاہدے کی شق چتھیس کے مطابق ہیں۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ ایک حساس مقام پر پہنچ چکا ہے ایران نے اپنے اسٹرٹیجک صبر کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں کمی کے چوتھے مرحلے میں قدم اٹھالیا ہے اور تہران کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایٹمی معاہدے میں باقی دیگر فریقوں کی جانب سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تو ایران بھی اس پرعملدرآمد کا پابند نہیں رہے گا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ کہ جو خود ایٹمی معاہدے سے نکل گیا ہے، اور گروپ فور پلس ون نے بھی اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے نہ صرف یہ کہ کوئی عملی اقدام انجام نہیں دیا ہے بلکہ یہ ممالک ایک غیر منطقی توقع رکھتے ہوئے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدوں کی پابندی کئے جانے اور حتی ان وعدوں کو دائمی اور مستقل کرنے کے درپے ہیں-

میخائیل اولیانوف اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کہ امریکہ خود تو ایٹمی معاہدے سے نکل چکا ہے اور وہ ان  تمام ملکوں کو بھی کہ جن سے ایران کو اپنا حق مانگنے کا اختیار ہے ان کو بھی منع کر رہا ہے- اور تہران سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے یہ بات بالکل متضاد اور ایک دوسرے کی نقیض ہے- 

 

  

ٹیگس