Dec ۰۱, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۰ Asia/Tehran
  • عراقی وزیر اعظم کے استعفے کی وجوہات اور اس کے نتائج

عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ میں اپنا استعفا پیش کردیا ہے - انہوں نے ارکان پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ جلد سے جلد نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں-

عادل عبدالمہدی کو گذشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں عراق کی نئی کابینہ کی تشکیل کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور صرف ایک سال کے بعد وہ استعفے پر مجبور ہوگئے- اہم سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ عراق میں جاری احتجاج، عبدالمہدی کے استعفے پر منتج ہوا؟- اس کی چند وجوہات ہیں- 

پہلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اعلی مرجعیت کی ہدایات کے جواب میں اور ملک کو درپیش سخت حالات کے پیش نظر اپنا استعفا پیش کیا ہے اور  عراق کی اعلی مرجعیت کی درخواست کا مثبت جواب دیا ہے- یاد رہے کہ کربلائے معلی میں عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے نمائندے، آیۃ اللہ صافی نے نمازجمعہ کے خطبوں میں ان کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ عوام کے جائز مطالبات کو کسی بھی طرح سے نظر انداز کرنے سے پورے عراق کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے -آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اپنے بیان میں سرکاری اورغیر سرکاری املاک کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے مظاہرین سے کہا کہ وہ تشدد پر یقین رکھنے والے شرپسند عناصر کو اپنی صفوں سے الگ کریں اور ایسے عناصر کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں -آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے کہا ہے کہ گذشتہ دومہینے سےجاری احتجاج کے پیش نظر اور خون خرابے کو روکنے کے لئے عراقی پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ ملک کی حاکمیت کے تحفظ اور قومی مفادات کے دائرہ کار میں اپنے انتخاب پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے عراقی پارلیمنٹ سے بھی کہا کہ وہ شفاف اور صحیح و سالم اور ایسے انتخابات کے انعقاد کا راستہ ہموار کرے، جو عراقی عوام کی خواہشات کی عکاسی کریں-

دوسری وجہ یہ ہے کہ عبد المہدی نے تشدد کو روکنے ، لوگوں کی جان و مال کے تحفظ اور دشمن عناصر کے توسط سے غلط فائدہ اٹھائے جانے کی روک تھام کرنے کی غرض سے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے-

قابل ذکر ہے کہ عراق میں تقریبا دو ماہ سے عراق کےدشمنوں نے معیشتی مشکلات کے خلاف عوام کے پر امن مظاہرون کو اغوا کرکے بدامنی اور بلوے کا بازار گرم کررکھا ہے۔عراق میں گزشتہ دومہینے میں جاری تشدد اور بلووں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں- ایک سو بیس سرکاری اور نجی مراکزکو نذر آتش کردیا گیا جن کا عوام کے مطالبات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آتشزنی اور بلوے کے واقعات، جو زیادہ تر نقاب پوش افراد انجام دیتے ہیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ بعض قوتیں عراق کو بدامنی اور افراتفری کے حوالے کردینا چاہتی ہیں۔عراق میں تشدد اور بلوے کی نئی لہر میں بھی نقاب پوش افراد ہی بلوا، نیز سرکاری اور نجی املاک کو نذرآتش کرتے نظر آتے ہیں۔ بلوے کی نئی لہر نے ثابت کردیا ہے کہ بلوائی، بدعنوانی کا خاتمہ یا اصلاحات نہیں بلکہ پورے ملک میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانا اور ایران کے ساتھ عراق کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوے کی نئی لہر میں ایران کی مخالفت کے ساتھ ہی ، عراق کی دینی مرجعیت بالخصوص آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی مخالفت کا عنصر بھی غالب ہے۔ چنانچہ نجف اشرف میں ایرانی کونسلیٹ کے ساتھ ہی دینی مرجعیت کے دفاتر پر بھی حملے کئے گئے اور آیت اللہ العظمی سیستانی کی توہین کی کوشش بھی کی گئی ۔عراق کی مختلف شخصیات اور رہنماؤں نے بھی صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ عوام کے پر امن مظاہروں کو تشدد اور بلوے میں تبدیل کرنے میں امریکا ، اسرائیل اور آل سعود کے منحوس مثلث سے وابستہ افراد ملوث ہیں-

 عبدالمہدی کے استعفے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عراق میں ان کی حکومت کے جاری رہنے تک ، بحران کا خاتمہ نہیں ہوسکتا- اگرچہ عبدالمہدی کی حکومت کو ایک سال کی مختصر مدت میں اقتصادی، سماجی اور معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بہت زیادہ وقت نہیں میسر نہیں ہوا، لیکن عبدالمہدی نے سلامتی بحال کرنے اور عوام کے مطالبات کی فراہمی کے لئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا- 

ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا عبدالمہدی کا استعفی عراق میں تشدد کے خاتمے کا باعث بنے گا؟

اگرچہ ممکن ہے کہ عبدالمہدی کے استعفے سے، عراق کے بعض گروہوں اور احتجاجیوں کو خوشی حاصل ہو اور احتجاج اور تشدد بھی مختصر مدت کے لئے تھم جائے، لیکن ایسا خیال نہیں کیا جاتا کہ عبد المہدی کے اس اقدام سے عراق میں تشدد اور احتجاج مکمل طور پر  ختم ہوجائیں گے- 

بنابر ایں اگر عبدالمہدی کا استعفے پارلیمنٹ میں منظور ہوگیا تو اس بات کی ضرورت ہے کہ پارلمینٹ ، تشدد کو روکنے کے لئے، نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں تیزی لائے اور عراق کی نئی کابینہ کو بھی چاہئے کہ اصلاحات انجام دینے اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے لئے ٹھوس عزم کا مظاہرہ کرے-   

دوسری جانب امریکی حکومت نے مغربی ایشیا میں اپنی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے عراقی حکام سے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم کے استعفے کے بعد عوام کے مطالبات پر توجہ دیں -امریکی حکومت نے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے استعفے کا اعلان کئے جانے کے بعد عراق میں اپنے مداخلت پسندانہ اقدامات اور ان کے منفی اثرات کی جانب اشارہ کئے بغیر دعوی کیا کہ عراقی حکام کو چاہئے کہ وہ عوام کے شکایتوں کو دور کریں -امریکی حکومت کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب مغربی ایشیا میں امریکا کی دہشت گرد فوج کی موجودگی ہی خطے میں عدم استحکام اور بدامنی کا باعث ہے - بہت سے عراقی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ امریکا کے مداخلت پسندانہ اقدامات اور پالیسیاں ہی عراقی عوام کی مشکلات کا اصل سبب ہیں ۔

ٹیگس