Dec ۰۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۴ Asia/Tehran
  • عبدالمھدی کے استعفے کے بعد عراق میں اقتدار کا سناریو

عراقی پارلیمنٹ نے گذشتہ روز یکم دسمبر کو وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا استعفی قبول کرلیا ہے۔

 سومریہ نیوز کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کے معاملے پر غور کیا گیا ۔ بعدازاں عراقی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کے استعفے کی منظوری دے دی اور صدر برہم صالح سے درخواست کی کہ وہ نئے وزیراعظم کے عہدے کے لیے کسی دوسرے شخص کے نام کا اعلان کریں۔ عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے آئین کے مطابق ہفتے کے روز پارلیمنٹ کو اپنا استعفی پیش کردیا تھا۔ اس سے پہلے جمعے کے روز انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے۔ آئین کے تحت نئے وزیراعظم کی تقرری تک عادل عبدالمہدی اور ان کی کابینہ کے ارکان، حکومت کے لازمی امور چلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔

عبدالمہدی کا استعفی قبول کئے جانے کے بعد اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عراق میں اقتدار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

عراقی اسپیکر محمد الحلبوسی کے اعلان کے مطابق آئین کی رو سے صدربرہم صالح کے  پاس نئے وزیراعظم کی تقرری  کے لیے ایک ماہ کا وقت ہے۔ اور اس مدت میں مزید اضافہ نہیں ہوگا- اسی سلسلےمیں عراق کی مستعفی حکومت کے ترجمان سعد الحدیثی نے عادل عبدالمہدی کا استعفی پارلمینٹ کی جانب سے منظورکئے جانے کے بعداپنے پہلے بیان میں کہا کہ اس استعفے کے ساتھ ہی عملی طور پر عبدالمہدی کی حکومت، امور کو آگے بڑھانے والی حکومت میں تبدیل ہوگئی ہے ۔

عراق کے بنیادی آئین کے مطابق عراق کے وزیر اعظم کا استعفی قبول ہونے کے ساتھ ہی صدر کو پندرہ دن کا وقت ہوگا کہ وہ نئے وزیر اعظم کا اعلان کریں- نئے وزیر اعظم کو کابینہ کی تشکیل کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا جائے گا- اگر نیا وزیر اعظم کابینہ کی تشکیل میں کامیاب نہ ہوسکا تو صدر کو پندرہ دن کے اندر، نئے وزیر اعظم کا اعلان کرنا پڑے گا- مجوزہ کابینہ کو بھی عراقی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا- اگر صدر نئے وزیر اعظم کا انتخاب نہ کرسکا اور کوئی حکومت تشکیل نہ پاسکی تو پھر خود صدر عارضی طور پر وزیر اعظم کے فرائض انجام دےگا-

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ عراقی آئین کے تحت صدر کو لازمی طور پر بڑے پارلیمانی دھڑے سے وزیر اعظم نامزد کرنا چاہئے۔ درحقیقت جو پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتی ہے وہ وزیر اعظم کا اعلان نہیں کرتی بلکہ بڑا پارلیمانی دھڑا وزیر اعظم کا اعلان کرتا ہے اور اس نئے وزیر اعظم کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی ایک سو پینسٹھ اراکین پارلمینٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرے- 

بڑے دھڑے کی تشکیل اس وقت عراق میں ایک ٹھوس مسئلہ ہے - عراق کے سیاسی گروہوں کو اس وقت کوشش کرنی چاہئے کہ وہ عراق میں اقتدار کا خلا روکنے کے لئے ، سیاسی رسہ کشی سے دوری اختیار کریں اور نئے وزیر اعظم کے اعلان پر اتفاق کریں کیوں کہ عراق کے مخالفین خاص طور امریکہ اور صیہونی حکومت عراق میں اقتدار کا خلا اور اسی طرح اس ملک کے قانونی اداروں کی نابودی چاہتے ہیں- اسی سلسلے میں عراق کے مخالفین اور خاص طور پر مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکہ اور اتحادی ملکوں کی کوشش،  اگلے قدم کے طور پر پارلیمنٹ کوتحلیل کرنا ہے- درحقیقت پارلیمنٹ کی تحلیل کا مسئلہ بھی ایک سناریو کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے-

عراقی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر سلیم الجبوری کہ جو 2018 کے انتخابات میں پارلمینٹ کے رکن نہیں بن سکے ایک بیان میں اس ملک کے سیاستدانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کردیں اور ایک عبوری حکومت تشکیل دیں تاکہ قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں- اس اپیل کی وجہ بھی یہ ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے ڈھانچے کے پیش نظر، عراقی وزیر اعظم اور آئندہ کابینہ بھی ممکن ہے اپوزیشن کے مفادات کو پورا نہ کرسکے- اس لئے عراق کے مخالفین، عراق کی پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے پر زور دے رہے ہیں-

ایک آخری نکتہ یہ ہے کہ عراق کی موجودہ مشکلات ، افراد کو تبدیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے سے کم نہیں ہوں گی بلکہ احتجاجات اور تشدد کے ختم ہونے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو نئی اصلاحات کا موقع دینے خاص طور پر آئین میں اصلاح، اورعراقیوں کے لئے امریکیوں کے تیار کردہ انتخابی قانون اور پارٹی قانون میں اصلاح سے،  کم ہوں گی-        

 

ٹیگس