Dec ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۰ Asia/Tehran
  • ہندوستان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں مسلمانوں کے خلاف متنازعہ بل پیش

ہندوستان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اس ملک کے وزیرداخلہ امت شاہ کی جانب سے شہریت ترمیمی بل کو پیش کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر پڑوسی ملکوں سے آکر بسنے والے مہاجرین کو ہندوستان میں شہریت دی جائے گی تاہم اس میں مسلمان شامل نہیں ہیں-

ہندوستان میں موجودہ قانون کے مطابق اس ملک میں غیر قانونی مہاجرین کو شہریت دینا ممنوع ہے لیکن نریندر مودی حکومت کے نئے بل کی بنیاد پر جو لوک سبھا میں پیش کیا گیا اس کی رو سے ان مہاجروں کو جو مجبور ہوکر پڑوسی ملکوں سے ہندوستان میں داخل ہوں گے ان کو شہریت دی جائے گی لیکن اس قانون میں مسلمان شامل نہیں ہیں-

ہندوستانی حکومت کی جانب سے لوک سبھا میں اس طرح کے بل کا پیش کیا جانا ایک طرف تو ہندوازم پر مبنی پالیسیوں کے تحت ہے کہ جس کا مقصد پڑوسی ملکوں میں اقلیت میں رہنے والے سکھ اور ہندووں کو پاکستان، بنگلادیش ، افغانستان، نیپال اور سری لنکا سے ہندوستان کی جانب راغب کرنا ہے، اور دوسری طرف  یہ بل ہندوستان کی علاقائی پالیسیوں سے مشتمل ہے کہ جس کی بنیاد پر نئی دہلی کی ماضی سے زیادہ یہ کوشش ہے کہ وہ چین اور پاکستان جیسے حریف ملکوں میں سیاسی نظام کے مخالفوں کی حمایت کا راستہ ہموار کرے-

 ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے متنازعہ بل میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اس میں مہاجر مسلمانوں کو شہریت دینے سے مستثنی رکھا گیا ہے اور اسی بنا پر بہت سے افراد اسے مسلم مخالف بل بتا رہے ہیں-

واضح رہے کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ لوک سبھا میں اپوزیشن کی شدید مخالفت اور ہنگامہ آرائی کے درمیان وزیر داخلہ امت شاہ نے جب کل شہریت ترمیمی بل پیش کیا تو ایوان میں حزب اختلاف کی تقریبا سبھی جماعتوں نے زور دار ہنگامہ کیا اور کہاکہ یہ تاریخ کا سیاہ دن ہے اور ملک کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کانگریس، ترنمول کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور دیگر جماعتوں نے اس بل کو مذہب کی بنیاد پرشہریت طے کرکے آئین کے بنیادی مقصد کو مجروح کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس سے آئین کے  آرٹیکل دس، تیرہ، چودہ، پندرہ اور چھبیس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی بل میں افغانستان پاکستان اور بنگلہ دیش سے مذہب کی بنیاد پر مبینہ طور پر استحصال کی وجہ سے ہندوستان میں پناہ لینے والے ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ اورجین طبقے کے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کو اس بل سے الگ رکھا گیا ہے۔

کانگریس کے پارلیمانی لیڈر رنجن چودھری نے کہا کہ اس بل کو پاس کرکے آئین کے آرٹیکل تیرہ اور چودہ کو کمزور کیا جارہا ہے اور یہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس متنازعہ بل کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور اس کو مسلمانوں کے خلاف بل بتایا جارہا ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں اور اسکالروں نے اس بل کے خلاف مہم چلا دی ہے۔ ہندوستان کی یونیورسٹیوں سے لے کر کینیڈا تک کی یونیورسٹیوں میں موجود ہندوستانی سائنسدانوں اور اسکالروں نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف آن لائن مہم کے دوران کہا ہے  کہ شہریت دینے کے لئے مذہب کا استعمال نہیں ہونا چاہئے اور یہ بل آئین کی بنیادی باتوں کی نفی کرتا ہے۔

الجزیرہ ٹیلیویزن نے ایک رپورٹ میں کہا ہے یہ بل ، آسام میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کے لئے ایک کاری ضرب شمار ہوتا ہے کیوں کہ حالیہ مردم شماری میں ان افراد کو ہندوستان کی عدم شہریت کا حامل بتایا گیا ہے- ان میں سے بہت سے افراد عرصۂ دراز سے کیمپوں میں زندگی گذار رہے تھے- ساتھ ہی ان میں سے بہت سے افراد برسوں سے ہندوستان میں ہیں ، وہیں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم بھی حاصل کی ہے- 

اس وقت اس بل کے خلاف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ، جے این یو، جامعہ اور ڈی یو کے طلبہ کی مختلف جماعتوں نے، نئی دہلی میں جنتر منترپر مظاہرہ کیا جس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شہریت ترمیمی بل کو واپس لے، کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والا ہے، جب کہ ہمارے ملک کا دستور سیکولر اور جمہوری ہے-

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے لوک سبھا کے ذریعہ شہریت ترمیمی بل 2019 کی منظوری پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین ہند کی روح کے خلاف قرار دیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیزکے مطابق شہریت ایکٹ 1955 میں زیر بحث ترمیم، دستور ہند کی بنیادی دفعات 14-15کے منافی ہے جو بالترتیب قانون کی نگاہ میں یکسانیت اور مذہب، ذات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کی اجازت نہیں دیتیں۔ جمعیۃ علماء ہند، اس ترمیم کو آئین ہند کے معارض تصور کرتے ہوئے اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کوضروری حمایت حاصل نہ ہو گی اور وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ پائے گی۔

ایسے ماحول میں اگرچہ ہندوستانی پارلیمنٹ بی جے پی کے کنٹرول میں ہے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ پارلمینٹ ، اس متنازعہ بل کے سلسلے میں منطقی اور ہوشمندانہ فیصلہ کرے گی خاص طور پر ایسے میں کہ جب نہ صرف ہندوستان کے اندر بلکہ علاقے اور دنیا کی سطح پر یہ بات سب پر عیاں اور واضح ہوچکی ہے کہ حکومت ہندوستان نے غیر معمولی حد تک مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا ہوا ہے اور اس کا یہ رویہ زیادہ دنوں تک حکومت کے فائدے میں نہیں ہوگا-

 

 

ٹیگس