Dec ۲۶, ۲۰۱۹ ۱۷:۱۴ Asia/Tehran
  • خلیج فارس کے ملکوں کو ترکی کا انتباہ

خلیج فارس کے بعض ملکوں خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ترکی کی کشیدگی بدستور جاری ہے-

اسی سلسلے میں ترکی کے صدر کے دفتر ترجمان ابراہیم کالین نے بدھ کو ایک بیان میں خبردار کیا ہے- انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کے بعض عرب ممالک ، شام کے کردوں کے ایک کمانڈر مظلوم کوبانی کے نام سے مشہور فرهاد عبدی شاهین کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں- ابراہیم کالین نے مزید کہا کہ ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خلیج فارس کے بعض ممالک کوبانی کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ اس کو ترکی کے خلاف استعمال کریں اور قطعی طور پر اس کا جواب دیا جائےگا-

خلیج فار کی بعض رجعت پسند عرب حکومتوں کے خلاف ترکی کی دھمکی سے پتہ چلتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ، اور مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ترکی کی جانب سے فوج کی تعداد میں توسیع کے ساتھ ہی ، خلیج فارس کے رجعت پسند عرب ملکوں کے اختلافات بھی ترکی کے ساتھ وسعت اختیار کرتے جا رہے ہیں- 

خلیج فارس تعاون کونسل میں قطر کے ساتھ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، مصر اور بحرین کے اختلافات اور ترکی کے لئے قطر کی حمایت کے سبب، انقرہ کی حکومت اور ان ملکوں کے درمیان اختلافات میں شدت آئی ہے- یہ ممالک کبھی ترکی کو بھی پاکستان کی طرح حمایتی فوج کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن خلیج فارس تعاون کو نسل میں قطر کے ساتھ اختلافات کے آشکارہ ہونے کے بعد ایک دوسرے کے حریف اور دشمن میں تبدیل ہوگئے ہیں- 

ترکی نے اسی طرح یمن کے مجاہدین کی حمایت میں غیر معمولی یوٹرن لیتے ہوئے عرب کے رجعت پسند ملکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کے پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس میں شک نہیں کہ خلیج فارس کے عرب ممالک، ترکی کے ساتھ خاص طورپر فوجی میدان میں نہ صرف مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ کسی بحران کے وجود میں آنے کے بعد، وہ ترکی کے خلاف تیسرے فریقوں سے استفادے کی کوشش کرتے ہیں- 

ان ملکوں کا مظلوم کوبانی کے ساتھ بات چیت کرنا خلاف توقع نہیں ہے- بلمبرگ چینل کے سیاسی ماہر گیلن کیری Glen Carey علاقائی بحرانوں کے بارے میں سعودی عرب کے کردار کے سلسلے میں کہتے ہیں: سعودی عرب نے اپنے اقدامات کے ذریعے یمن میں انسانی المیے کی صورتحال پیدا کردی ہے- ایسا بحران کہ جو یمن کے وسیع محاصرے کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اور یہ اقدام صرف علاقے کی صورتحال کے مزید ابتر ہونے پر منتج ہوا ہے-

سعودی حکومت نے اپنے انسانیت سوز اقدامات کو جاری رکھتے ہوئے ریاض حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی جمال خاشقجی کو، ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ طرز پر انتہائی بے دردی سے قتل کردیا تھا - اور یہ ایسا اقدام تھا کہ جس پر علاقے اور عالمی سطح پر آل سعود کی پالیسیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی-

واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں سعودی عدالت میں 11 ملزموں پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 5 مجرموں کو سزائے موت سنائی اور 3 مجرموں کو 24 سال تک قید کی سزا سنائی جبکہ 3 ملزمان کو بری کردیا گیا۔

سعودی حکام نے اس قتل کیس میں شہزادہ محمدبن سلمان کےقریبی ساتھی سعود القحطانی سے بھی تفتیش کی لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا۔

سعودی ولیعہد محمدبن سلمان پر الزام لگایا گیا کہ ان کے حکم پر جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا لیکن انہوں نے اس الزام کی تردید کی۔ تاہم ماورائے قانون قتل کے امور میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر آگنیس کیلامارڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی ولیعھد محمد بن سلمان نے سعودی صحافی اور نقاد جمال خاشقجی کے قتل کے حکومتی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ کیلا مارڈ نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ آزادانہ تحقیقات سے ایسے معتبر ثبوت و شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کا ہاتھ ہے۔

جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان کے ناقد تھے اور غیر ملکی اخبارات میں ان پر سخت تنقید کرتے تھے۔

واضح سی بات ہے کہ اس سلسلے میں انقرہ حکومت نے اس ہولناک جرم کی خبر کو پھیلانے میں اہم کردار کیا تھا- اسی سبب سے بعض مغربی حکومتیں، سعودی حکومت سے رابطہ برقرار کرنے میں بہت محتاط عمل کر رہیں ہیں-

ترکی کی حکومت  اسی طرح عرب ملکوں میں اخوان المسلمین سے وابستہ حکومتوں کے برسراقتدار آنے میں کوشاں ہے- اسی وجہ سے خلیج فارس کی رجعت پسند حکومتیں کہ جو چنداں عوامی حمایت سے بہرہ مند نہیں ہیں، ترکی حکومت کی ان سرگرمیوں سے بہت تشویش میں مبتلا ہیں- مجموعی طور پر خلیج فارس کے عرب ملکوں کے ساتھ  ترکی کے اختلافات کے ریکارڈ کے پیش نظر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ خلیج فارس کی عرب حکومتیں، ترکی کے خلاف شام کے کردوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے اپنی امنگوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتیں- اگر ان کی یہ آرزو عملی جامہ پہن سکتی ہوتی تو امریکہ گذشتہ برسوں میں ہی اس آرزو کو عملی جامہ پہنا چکا ہوتا اور رجب طیب اردوغان ترکی کے اقتدار سے بے دخل کردیئے گئے ہوتے-        

ٹیگس