Jan ۲۲, ۲۰۲۰ ۱۷:۳۴ Asia/Tehran
  • عمان کے وزیر خارجہ کا دورۂ تھران، علاقائی سفارتکاری کا تسلسل

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی نے منگل کو تہران میں علاقے کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا-

عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی نے حالیہ دو ہفتے کے دوران دوسری بار تہران کا دورہ کیا ہے- یہ ملاقات ایسے میں انجام پائی ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ نے گذشتہ جمعے کو ہندوستان کے دورے سے واپسی کے موقع پر مسقط میں ایک مختصر قیام کے دوران ، کینیڈا کے وزیر خارجہ اور یوسف بن علوی سے بھی ملاقات کی تھی-

علاقے میں عمان کے ممتاز کردار نے اس ملک کو علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ علاقائی سطح پر تبادلۂ خیال کے لئے ایک قابل اعتماد اور قریبی ترین فریق میں تبدیل کردیا ہے- عمان نے ایٹمی مذاکرات اور ایٹمی معاہدے کے انجام پانے میں بھی اپنا مثبت رول ادا کیا اور اس کے بعد بھی ہمیشہ علاقائی مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال اورصلاح و مشورے کے لئے ایک قابل اعتماد فریق رہا ہے- اس بنا پر دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات اعلی ترین سطح پر قائم ہیں-

اس وقت تہران اور مسقط کے مذاکرات میں دو مسئلے نے، اس ملاقات کی اہمیت کو دوچنداں کردیاہے-

پہلا مسئلہ؛ عراق میں امریکہ کے حالیہ دہشت گردانہ اقدام کے بعد علاقے میں کشیدگی میں شدت آنا ہے- امریکہ نے تین جنوری کو ایک دہشت گردانہ اقدام میں عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک فضائی حملے میں عراق کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ چند افراد کو میزائلوں کا نشانہ بناکر شہید کردیا تھا- امریکہ نے یہ دہشت گردانہ کاروائی ایسی حالت میں انجام دی کہ جنرل سلیمانی، عراقی حکام کی دعوت پر اس ملک کے دورے پر تھے- ایران نے بھی امریکہ کی اس دہشت گردانہ کاروائی کے جواب میں عراق میں واقع امریکیوں کے سب بڑے اور اہم ترین فوجی اڈے عین الاسد پر متعدد میزائل برسائے-

دوسرا مسئلہ ؛ ایٹمی معاہدے کی سرنوشت اور یورپی ٹرائیکا کا غیر فعال اور نا معقول رویہ ہے کہ جس نے ایٹمی معاہدے کو امریکی اہداف کی تکمیل کی راہ میں، مکمل نابودی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے- ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے مسئلے میں عمان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں، خلیج فارس کی تعاون کونسل کے ملکوں سے مختلف ایک بیان میں کہا تھا کہ سلطنت عمان امریکی فیصلے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ہی علاقے میں امن و سلامتی کے تحفظ کے لئے دوستانہ تعلقات جاری رکھے گی- 

ان حقائق کے پیش نظر تہران میں  ایران اور عمان کے وزرائے خارجہ کے مذاکرات، علاقے میں اجتماعی سلامتی کو پائیدار بنانے کے لئے مشترکہ مفادات کے دائرے میں سیاسی تبادلۂ خیال کا تسلسل ہیں- علاقے کے مسائل سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ کی یکطرفہ پسندی، مغربی ایشیا میں اجتماعی سلامتی اور امن و استحکام سے تضاد رکھتی ہے- امریکہ کے اس طرح کے رویے اور علاقے میں امریکہ کی مداخلت پسندانہ فوجی موجودگی، ہرگز قابل قبول نہیں ہے- کیوں کہ اس سے علاقے کے تمام ملکوں کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے- ایسے حالات میں مسقط کی کوشش ہے کہ چند فریقی سفارتکاری کے ذریعے علاقے کے بحرانوں کے حل میں مدد کرے-

اس سے قبل عمان کے مرحوم بادشاہ سلطان قابوس نے بھی مارچ 2019 میں اپنے دورۂ تہران میں، علاقے کے ملکوں کی سطح پر ایک جامع اور ہمہ گیر کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کی تھی- ایران نے اس طرح کا کردار ادا کرنے کو، ہمیشہ مثبت اور ذمہ دارانہ بتایا ہے- 

عمان میں ایران کے سابق سفیر حسین نوش آبادی نے تہران اور مسقط کے قریبی تعلقات اور علاقائی استحکام پر ان تعلقات کے مثبت اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی مسائل میں عمان کا ثالثی کا کردار اور ایران کے ساتھ سیاسی تبادلۂ خیال کسی پر پوشیدہ نہیں ہے - عمان نے گذشتہ چالیس برسوں کے دوران ہمیشہ کوشش کی ہے کہ علاقے خاص طور پر خلیج فارس کے علاقے میں تنازعات اور کشیدگی کو کم کرنے کے لئے تبادلۂ خیال کے ذریعے اپنا ممتاز کردار ادا کرتا رہے اور اس نے اس کے لئے ہمیشہ علاقے میں ایک واسطے اور ثالث کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا ہے-

عمان اس وقت بھی علاقے کی اسٹریٹیجیز پر تکیہ کرتے ہوئے اور خارجہ پالیسی کے میدان میں شفاف موقف اپنانے کے ذریعے، علاقے میں کشیدگی کو پھیلنے سے روکنے میں کوشاں ہے- امن و استحکام کے تحفظ کے لئے اس سطح پرتعلقات اور کوششیں، تہران اور مسقط کے درمیان گہری مفاہمت اور علاقے میں اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے اس سے استفادے کی علامت ہیں-

ٹیگس