Jun ۰۴, ۲۰۱۸ ۱۴:۴۲ Asia/Tehran
  • امریکا، سامراجی میڈیا کی شکست سے بوکھلا گیا ہے : آئی آر آئی بی کے سربراہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر علی عسگری نے امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے ان پر عائد کی گئی پابندیوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، سامراجی میڈیا کے انحصار کے شکست کھانے اور ایران اور دنیا کے رای عامہ میں مسلسل ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ سے غصے میں ہے۔

واضح رہے کہ امریکا کی وزارت خزانہ نے 15 مئی کو آئی آر آئی بی کے سربراہ ڈاکٹر علی عسگری پر یکطرفہ پابندی عائد کر دی تھی۔ امریکا کی جانب سے یہ کاروائی 8 مئی کو ایٹمی سمجھوتے سے امریکا کے نکلنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد انجام پائی ہے۔

آئی آر آئی بی کے سربراہ نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں امریکا کے اس اقدام کو امریکا کی سرنگونی کی مزید نشانی قرار دیا اور تاکید کی کہ امریکا اس وہم و گمان میں مبتلا ہے کہ ایرانی قوم کے خلاف مسلسل پابندیوں اور دباؤں سے وہ اپنی سرنگونی کے راستے کو آہستہ کرنے کا راستہ تلاش کر لے گا لیکن وہ اس سے غافل ہے کہ اس عمل کا نتیجہ عظیم ایرانی قوم کے درمیان مزید اتحاد و یکجہتی کے طور پر سامنے آئے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر علی عسگری نے امریکا میں مسسلسل سماجی بحرانوں، سیاسی نیز اخلاقی اسکینڈل، حتی صدارتی سطح پر، خارجہ پالیسی میں شک و شبہات اور مغربی ایشیائی علاقے کے بارے میں سیاست کے مکمل طور پر بند گلی میں پہنچ جانے کو امریکہ کی سرنگونی کی مثال قرار دیا اور کہا کہ امریکی وزارت خزانہ دنیا بھر کے قرضے میں ڈوبی ہوئی ہے اور دنیا والے دنیا کی سب سے مقروض حکومت کے طور پر اس ملک سے 21 ہزار ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

آئی آر آئی بی کے سربراہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ملت ایران کے خلاف امریکا کی ظالمانہ پابندیاں، انقلاب اسلامی کے لئے تاریخی مواقع کی حیثیت سے ظاہر ہوں گی، کہا کہ اس عمل کا نتیجہ، علاقے میں مزاحمت کے محاذ کو مضبوط کرنے، دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے، صیہونی حکومت کے زوال کو تیزکرنے، عالم اسلام کے خیانتکاروں کے طور پر امریکا کے اتحادیوں کو خبردار کرنے اور ضرورت پڑنے پر اپنی ایٹمی پروگرام پھر سے شروع کرنے کے طور پر برآمد ہوگا۔

واضح رہے کہ امریکی وزارت خزانہ دنیا کے 21 ہزار ارب ڈال کی مقروض ہے اور اس طرح سے وہ دنیا کی سب سے مقروض وزارت سمجھی جاتی ہے۔

ٹیگس